جون آف آرک
وکیپیڈیا سے
برصغیر میں جس طرح ٹیپو سلطان اور تیتو میر جیسے مجاھدوں کو آزادی کا ہیرو سمجھا جاتا ہے، اسی طرح فرانس میں جون آف آرک کو بلند مقام دیا جاتا ہے۔ جون نے چونکہ انگریزوں کے خلاف اور فرانس کے حق میں جدوجہد کو "خدائی فریضہ" قرار دیا تھا اس لیے اس کو مقدس ہستی سمجھا جاتا ہے۔ عیسائی دنیا پہلے اسے جادوگرنی سمجھتی تھی لیکن بعد میں اسے "ولی" قرار دے دیا۔ ہم جون کی یہ داستان ایک تاریخی واقعے کے طور پر پیش کررہے ہیں اس میں بیان کیے گئے جون کے مذہبی دعوؤں کو ہم درست نہیں سمجھتے۔
وہ 30 مئی 1431ء کا دن تھا۔ "رواں" بازار میں ہر طرف لوگ ہی لوگ نظر آ رہے تھے۔ لمبے لمبے لبادوں اور اونچی ٹوپیوں والے نقاب پہنے ہوئے۔ "انکوزیشن" کے جلاد ایک 19 برس کی لڑکی کو گھسیٹتے ہوئے لے کر آ رہے تھے۔ لڑکی کو انھوں نے بازار کے وسط میں موجود ٹکٹکی سے باندھ دیا۔ کچھ ہی دیر بعد ایک پادری اونچے چبوترے پر کھڑا ہوا اور بلند آواز میں چلایا: "لڑکی جادوگرنی ہے، اسی لیے اس کی روح کو بچانے کے لیے اسے جلانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔"
لوگ حیران رہ گئے۔ جو لڑکی کل تک ان کے لیے دیوتا تھی، آج جادوگرنی بن گئی تھی! ٹکٹکی کے اردگرد لکڑیوں کو آگ لگا دی گئی۔ آگ آہستہ آہستہ لڑکی کی طرف بڑھ رہی تھی۔ اس نے اپنا منہ آسمان کی طرف کر لیا اور کہنے لگی: "میرا کام مکمل ہو گیا، شکریہ اے خدا۔" اور آگ کے بھیانک شعلوں نے اسے بے رحمی سے نگل لیا۔ 1412ء میں فرانس کے ایک گاؤں ڈومرمی (Domremy) میں ایک کسان کے گھر لڑکی پیدا ہوئی۔ کسان نہایت اکھڑ اور بد مزاج آدمی تھا۔ وہ بیٹی کی پیدائش پر سخت غصے میں تھا۔ اسے تو بیٹا چاہیے تھا جو بڑا ہو کر کھیتوں میں اس کا ہاتھ بٹاتا۔ اس نے پہلی مرتبہ انتہائی غصے اور ناپسندیدگی سے بچی کی طرف دیکھا تو اس کے تنے ہوئے چہرے پر واضح تبدیلی آگئی۔ بچی کی آنکھوں میں اسے عجیب سی چمک نظر آئی۔ پہلے تو اس کا خیال تھا کہ وہ اس منحوس کا گلا دبا دے لیکن پھر نہ جانے اسے کیا ہوا کہ اس نے اپنا ارادہ بدل دیا۔ یہی بچی بڑی ہو کر جون آف آرک Joan of Arc کے نام سے پوری دنیا میں مشہور ہوئی۔ اس نے فرانس کی تاریخ پر گہرا اثر ڈالا اور فرانسیسیوں میں آزادی کی روح پیدا کی۔
"جون آف آرک" اگرچہ تعلیم حاصل نہ کر سکی لیکن وہ بڑی حساس اور نیک لڑکی تھی۔ وہ اپنے مذہب پر گہرا یقین رکھتی تھی۔ اس کی والدہ نے اس کے اندر وہ ساری خوبیاں پیدا کر دی تھیں جو اس وقت ایک سچی عیسائی ماں کا فرض سمجھا جاتا تھا۔
یہ وہ زمانہ تھا جب فرانس پر انگریز اپنا قبضہ مضبوط کرنا چاہتے تھے۔ جبکہ فرانس کا شاہی خاندان ٹوٹ پھوٹ کا شکار تھا۔ چنانچہ جب انگریزوں نے بچے کھچے فرانس پر حملہ کیا اور فرانسیسیوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑ دیے تو جان نے دعوی کیا کہ اسے غیب سے آوازیں آئی ہیں کہ اپنے ہم وطنوں کو انگریزوں کے ظلم و ستم سے بچاؤ اور فرانسیسی بادشاہ ڈوفن چارلس (Dauphin Charles) کے ہاتھ مضبوط کرو۔
ڈوفن فرانس کے بادشاہ ویلس چارلس کا جانشین تھا اور اس وقت کے رواج کے مطابق اسے بادشاہ بننا تھا لیکن ایک دوسرا شخص بھی تھا جو فرانس کا بادشاہ بننا چاہتا تھا۔ یہ تھا ڈیوک آف برگنڈی فلپ۔ اسے انگریزوں کی حمایت حاصل تھی۔ فلپ کے فوجی دستوں نے انگریزوں کی مدد کرکے ایسی بد امنی پھیلائی کہ باپ کے مرنے کے بعد پانچ برس گزرنے کے باوجود بھی اسے تاج نہیں پہنایاجا سکا۔ کیونکہ ریمز (Reims) وہ اہم ترین جگہ تھی جہاں تاج پوشی کی رسم ادا کی جاتی تھی اور وہ انگریزوں کے قبضے میں تھی۔ جون کا گاؤں ریمز کے علاقے کے قریب تھا۔ اس کے ایک طرف انگریز اور دوسری طرف فرانس کے فوجی تھے۔ جون کے گاؤں کے لوگ انگریزوں کے ظلم و ستم سے تنگ آ کر گاؤں چھوڑنے لگے تھے کیونکہ انگریز آئے دن ان کی جھونپڑیاں جلا دیتے، فصلیں تباہ کر دیتے اور مال مویشی لے جاتے۔ ان حالات میں جون کو اپنے مظلوم بادشاہ اور انگریزوں کے ظلم و ستم کا بہت خیال تھا۔ وہ اکثر کہا کرتی کہ اسے خواب آتے ہیں۔ کوئی مقدس روح اسے پکارتی ہے۔ پھر ایک ایسا واقعہ ہوا جس کی وجہ سے جون نے یہ فیصلہ کر لیا کہ وہ ضرور فرانس کے لوگوں کی مدد کرے گی۔
ہوا یہ کہ ایک دن انگریزوں نے اس کے گاؤں پر حملہ کیا۔ جون کا ایک بھائی، جو اندھا تھا، وہ ایک مکان میں جل کر ہلاک ہو گیا۔ اس واقعے سے جون کے دل میں انگریزوں سے نفرت دوچند ہو گئی۔ اس نے اپنے گاؤں کے پادری کو بتایا کہ اسے اس طرح کے خواب آتے ہیں اور غیب سے آوازیں بھی آتی ہیں۔ ظاہر ہے یہ جون کے تحت الشعور کی آوازیں تھی یعنی انگریزوں سے نفرت اور اپنے بادشاہ کی ہمدردی کا احساس تھا جسے وہ غیبی آوازیں سمجھتی۔ جون کو یقین تھا یہ "کشف" ہے اور اس کا یقین مزید پختہ ہو گیا جب پادری نے اس کے کشف کی تصدیق کر دی اور اپنی حمایت کا یقین دلایا اور کہا کہ وہ ایسا ہی کرے جیسے غیبی آوازوں نے اسے کہا ہے۔
جون نے جب لوگوں کو بتایا کہ اس کو فرانس کی مدد کا حکم دیا گیا ہے تو لوگوں نے اس کا مذاق اڑایا اور کچھ نے بچی سمجھ کر ٹال دیا۔ مگر وہ اپنے ارادے پر قائم رہی اور اس نے اپنے علاقے کے گورنر سر رابرٹس (Sir Robert) سے اس بات کا اظہار کیا۔ شروع میں تو سر رابرٹس نے بھی اس کی باتوں پر کوئی دھیان نہ دیا مگر جب اس نے جون کا جذبہ دیکھا تو اس کو ولی عہد ڈوفن کے پاس بھیج دیا اور ساتھ اپنا رقعہ بھی دیا جس میں لکھا تھا کہ لارنس کی دوشیزہ (Maiden of Lorence) کو آپ کے پاس بھیج رہا ہوں۔
دراصل اس زمانے میں فرانس کے لوگوں میں یہ بات مشہور تھی کہ ایک بزرگ جنھیں وہ لوگ "Prophet of Merlin" کہتے تھے، آئیں گے اور فرانس کے لوگوں کی مدد کریں گے۔ ان حالات میں لوگوں نے جون کو وہی بزرگ سمجھ لیا۔ جون، سر رابرٹس کے آدمیوں کے ساتھ ولی عہد سے ملنے روانہ ہوئی۔ راستے میں ان کا مقابلہ انگریزوں کے ایک دستے سے بھی ہوا، زیادہ تعداد ہونے کے باوجود انگریزوں نے شکست کھائی اور وہ لوگ آگے بڑھتے گئے۔ راستے میں ایک جگہ ان لوگوں کو ایک جلا ہوا گاؤں ملا جہاں پر ایک چرچ سے جون کو ایک تلوار ملی۔ جون جب وہ تلوار لیے باہر نکلی تو وہ یہ دیکھ کر بڑی حیران ہوئی کہ جہاں سے گزرتی لوگ عقیدت سے سر جھکا لیتے اور کہتے کہ"Maiden of Lorence" گئی ہے۔ دراصل اس تلوار کے متعلق لوگوں میں مشہور تھا کہ اس سے لڑنے والا ان کی مدد کرے گا۔ آخر کار وہ لوگ ولی عہد ڈوفن کے دربار تک پہنچ گئے۔
کہا جاتا ہے کہ جب جون ولی عہد کے پاس پہنچی تو ولی عہد نے اس کا امتحان لینے کی خاطر اپنا تاج کسی اور کو پہنا دیا اور خود معمولی سپاہی کے روپ میں ایک طرف کھڑا ہو گیا۔ دراصل ولی عہد ڈوفن "Dauphin" کے کانوں تک بھی یہ خبر پہنچ گئی تھی کہ ایک لڑکی جس کو لوگ "Maiden of Lorence" کہتے ہیں، آ رہی ہے اور وہ اس کی سچائی کا امتحان لینا چاہتا تھا۔ جون دربار میں آئی تو پہلے تو وہ تخت کی طرف گئی مگر پھر رک گئی۔ اس نے دربار کے چاروں طرف نظر دوڑائی اور "ڈوفن" کے پاس جا کر رک گئی۔ ڈوفن اس بات پر بڑا حیران ہوا کیونکہ اس سے پہلے جون نے اسے نہیں دیکھا تھا۔ تاریخی طور پر اگرچہ اس واقعے کو درست نہیں کہا گیا لیکن اس سے ملتے جلتے واقعات اور بھی ملتے ہیں۔
ڈوفن نے جون کے جوش و جذبے کو پسندیدگی کی نظر سے دیکھا اور یہ سوچا کہ سپاہیوں پر ایک پر جوش لڑکی کی تلقین کا اچھا اثر پڑے گا۔ چنانچہ اس نے جون کو فوج کی کمانڈ دے دی۔
جون نے 10 اپریل 1428ء کو فوجی وردی پہنی اور ایک ہاتھ میں تلوار اور دوسرے ہاتھ میں جھنڈا لیا۔ جھنڈا اس نے خود تیار کیا تھا اور اس پر حضرت عیسی علیہ السلام (Jesus) کا نام لکھا تھا۔ جون نے دس ہزار فرانسیسی فوجیوں کو ساتھ لیا اور اورلینز کے شہر پر حملہ کر دیا۔ یہ شہر انگریزوں کے قبضے میں تھا۔ لطف کی بات یہ ہے کہ دوسری طرف بھی عیسائی لشکر تھا۔ اس لیے یہ کوئی مذہبی جنگ نہیں بلکہ قومی جنگ تھی۔
اس شہر میں دو قلعے تھے۔ ایک قلعے سے دوسرے قلعے کا فاصلہ بہت کم تھا۔ ایک قلعے پر انگریزوں کا قبضہ تھا اور دوسرے پر فرانسیسی افواج کا۔ جون نے حملے سے پہلے انگریزوں کو ایک خط لکھوایا جس میں ان کو کہا گیا تھا کہ آرام سے اور بغیر لڑائی کیے شہر فرانسیسیوں کے حوالے کر دیں ورنہ ان کا وہ حشر ہو گا کہ وہ یاد رکھیں گے۔ یہ خط اس چرچ کی طرف سے تھا جس میں جون کو خدا کی طرف سے نامزد بتایا گیا تھا۔ انگریز اس کی بات نہ مانے۔ چنانچہ جون نے اپنی فوج کے ساتھ انگریزوں پر حملہ کیا۔ حملے سے پہلے اس نے اپنے سپاہیوں سے تقریر کرتے ہوئے کہا: "ساتھیو! اپنے دل مضبوط رکھنا کیونکہ ہماری حفاظت کائنات کا بادشاہ کر رہا ہے۔ لڑو خدا اور فرانس کے لیے۔" ان الفاظ کے ساتھ اس نے قلعے پر حملہ کر دیا۔
حملے کے دوران وہ زخمی بھی ہوئی۔ اس کے بائیں بازو پر تیر لگا لیکن اس نے ہمت نہ ہاری اور پے در پے حملے کرکے شہر کو انگریزوں سے چھڑا لیا۔ اس کے بعد جون ولی عہد "ڈوفن" کو "ریمز" لے گئی۔ جہاں اسے چارلس ہفتم (Charles 7) کے نام سے تاج شاہی پہنایا گیا۔
1428ء میں کچھ ایسے واقعات پیش آئے جن کے باعث فرانس کا بشپ جین لمٹائر (Jean Lemaire) جون کا دشمن ہو گیا۔ وہ جون سے حسد کرتا تھا۔ وجہ یہ تھی کہ بادشاہ (ڈوفن) اب جون پر زیادہ اعتبار کرنے لگا تھا اور ہر معاملے میں جون سے مشورہ لیتا۔ چنانچہ جب بشپ سے تحقیقاتی شعبے کے انچارج کا عہدہ لے کر جون کو دے دیا گیا تو وہ جون کا دشمن ہو گیا۔ اس نے درپردہ فرانس کے دشمنوں یعنی انگریزوں سے رابطہ کیا اور انگریزوں اور ڈیوک آف برگنڈی یعنی فلپ کے ساتھ مل کر جون کو مارنے کے منصوبے بنانے لگا۔
جون کی سب سے بڑی خواہش پیرس (Paris) کو انگریز غاصبوں کے چنگل سے آزاد کرانا تھا۔ اسی لیے اس نے 1429ء میں ستمبر کے مہینے میں پیرس کو چھڑانے کے لیے بار بار حملے کیے مگر اسے ناکامی ہوئی۔
مئی 1430ء میں جون نے کومپین (Compiègne) کے محصور شہر پر حملہ کیا۔ اس نے اپنی طاقت کا غلط اندازہ لگایا تھا چنانچہ وہ شکست کھا گئی اور انگریزوں کے ہاتھوں گرفتار ہو گئی۔ اب تو اس کے دشمنوں کو اس سے بدلہ لینے کا موقع مل گیا تھا۔ ڈیوک آف برگینڈی نے کلیسا سے کہا کہ وہ جون پر مقدمہ چلائے بغیر ہی اسے ختم کر دیں۔ مگر کلیسا کو اس بات کا بخوبی اندازہ تھا کہ جون کو اگر بغیر مقدمہ چلائے انکوزیشن کے حوالے کر دیا گیا تو لوگ بھڑک اٹھیں گے۔
انکوزیشن کلیسا کا ایک بدنام ترین ذیلی ادارہ تھا جس میں کلیسا کے باغیوں کو اذیت دے کر مارا جاتا اور کہا جاتا تھا کہ ایسا کرنے سے ان لوگوں کی روح عذاب سے بچ جاتی ہے۔ شروع میں یہودی اس کا نشانہ تھے۔ جب اندلس پر عیسائیوں نے قبضہ کیا تو مسلمانوں پر اس ادارے نے ظلم و ستم کے پہاڑ توڑ دیے اور سچے عیسائی بھی اپنے اس ادارے کے ظلم و ستم کا شکار بنے۔ بعد میں سائنس دانوں پر بھی اسی ادارے نے ظلم و ستم کیے۔ چنانچہ ایک طویل اور شرم ناک مقدمہ جون پر چلایا گیا۔ جون پر الزام لگائے گئے کہ اس نے عورت ہونے کے باوجود مردانہ جنگی کپڑے پہنے۔ اس الزام کے جواب میں جون نے کہا کہ زنانہ کپڑے پہن کر جنگ نہیں لڑی جا سکتی۔ ایک اور الزام جو جون پر لگایا گیا وہ یہ تھا کہ جون نے یہ دعوی کیا تھا کہ وہ مقدس روحوں سے ہم کلام ہوئی ہے۔ انھوں نے جب جون سے مقدس روحوں کا حلیہ پوچھا تو جون نے جو حلیہ ججوں کو بتایا وہ درست تھا اور وہ حلیہ ان کتابوں میں لکھا ہوا تھا جو آج تک عام عوام کے سامنے نہ لائی گئیں تھیں اور نہ کسی عام آدمی کو یہ بات پتا چل سکتی تھی۔
جون کے جج دو تھے۔ ایک کا نام کاشین (Cauchon) تھا جو کہ بووے کا پادری تھا اور دوسرا بشپ وہ جین لیمٹائر تھا جو پہلے ہی جون کا دشمن تھا۔ انھوں نے 21 فروری سے 24 مارچ تک جون پر بے انتہا تشدد کیا اور اسے کہا کہ وہ اس بات سے دستبردار ہو جائے کہ اس نے خدا اور مقدس روحوں سے بات کی ہے مگر جون نہ مانی۔ چنانچہ بووے کے پادری نے جون کو جادوگرنی قرار دیا اور 30 مئی 1431ء کو "رواں" کے بازار عام میں اس کو ٹکٹکی سے باندھ کر جلا دیا گیا۔ جون ان سے اپنا قصور پوچھتی رہی۔
جون نے اپنے مرنے سے پہلے یہ کہا تھا کہ اس کی موت کا انگریزوں کو کوئی فائدہ نہیں ہو گا کیونکہ اب فرانسیسی انگریز کے غلام بن کر نہیں رہیں گے۔ چنانچہ اس کے مرنے کے سات سال بعد Paris پر فرانس کا قبضہ ہوگیا۔ 1437ء میں فرانس کی فوجوں نے پیرس پر قبضہ کر لیا اور کچھ عرصے بعد تمام فرانس انگریزوں کے قبضے سے چھڑا لیاگیا۔ جون نے لوگوں کے اندر آزادی کی ایسی شمع جلا دی تھی کہ انھوں نے اپنے ملک کو آزاد کرا لیا۔
جون آف آرک کی موت کے بعد 1456ء میں حکومت نے اس کے مقدمے پر نظر ثانی کی اور اس کو بے قصور ٹھہرایا۔ 1920ء میں پوپ بینی ڈکٹ پانزدہم (Banie Dakut) نے اس کو باقاعدہ کیتھلک (Catholic) رسومات کے ساتھ ولی قرار دیا۔ آج بھی فرانس میں 30 مئی کا دن قومی تہوار کے طور پر منایا جاتا ہے۔ لوگ جون آف آرک کے مشکور ہیں کہ اس نے ان کو آزادی جیسی نعمت سے روشناس کرایا۔