نماز
وکیپیڈیا سے
اسلام کا دوسرا اہم رکن نماز ہے۔نماز کے لغوی معنی کسی کی طرف رخ کرنا، بڑھنا،دعا کرنا اور قریب ہونا ہے،نماز عبادتالہی کا مقررہ طریقہ ہے۔
مقالہ بہ سلسلۂ مضامین اسلام |
عـقـائـد و اعـمـال |
اہـم شـخـصـیـات |
محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم |
کـتـب و قـوانـیـن |
مسلم مکتبہ ہائے فکر |
معاشرتی و سیاسی پہلو |
اسلامیات • فلسفہ |
مزید دیکھیئے |
اسلامی اصطلاحات |
[ترمیم کریں] مزید پڑھیے
فلسفۂ نماز
نماز عقل و وجدان کے آئینہ میں
نماز کی فضیلت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی زبانی نماز کی اہمیت
- دین کا ستون
- مومن کی معراج
- ایمان کی نشانی
- شکر گزاری کا بھترین ذریعہ
- میزان عمل
- ہر عمل نماز کا تابع
- روز قیامت پھلا سوال
- نمازی کے ساتھ ہر چیز خدا کی عبادت گزار
- نمازی کا گھر یا آسمان والوں کے لئے نور
نماز کے اثرات اور فوائد
- گناہوں سے دوری کا ذریعہ
- گناہوں کی نابودی کا سبب
- شیطان کو دفع کرنے کا وسیلہ
- بلاؤں سے دوری
[ترمیم کریں] فلسفۂ نماز
اسلامی قوانین اور دستورات کے مختلف اور متعدد فلسفے اور اسباب ھیں جن کی وجہ سے انھیں وضع کیا گیا ہے ۔ ان فلسفے اور اسباب تک رسائی صرف وحی اور معدن وحی( رسول و آل رسول(ع) ) کے ذریعہ ھی ممکن ہے ۔ قرآن مجید اور معصومین علیھم السلام کی احادیث میں بعض قوانین اسلامی کے بعض فلسفہ اور اسباب کی طرف اشارہ کیا گیا ہے ۔ انہیں دستورات میں سے ایک نماز ہے جو ساری عبادتوں کا مرکز ، مشکلات اور سختیوں میں انسان کے تعادل و توازن کی محافظ ، مومن کی معراج ، انسان کو برائیوں اور منکرات سے روکنے والی اور دوسرے اعمال کی قبولیت کی ضامن ھے۔ خدا وند عالم اس سلسلہ میں فرماتا ہے : ” اقم الصلاۃ لذکری میری یاد کے لئے نماز قائم کرو ۔ اس آیت کی روشنی میں نماز کا سب سے اھم فلسفہ یاد خدا ہے اور یاد خدا ھی ہے جو مشکلات اور سخت حالات میں انسان کے دل کو آرام اور اطمینان عطا کرتی ہے ۔ ” الا بذکر اللہ تطمئن القلوب آگاہ ھو جاؤ کہ یاد خدا سے دل کو آرام اور اطمینان حاصل ھوتا ہے ۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ آلہ وسلم نے بھی اسی بات کی طرف اشارہ فرمایا ہے : نماز اور حج و طواف کو اس لئے واجب قرار دیا گیا ہے تاکہ ذکر خدا ( یاد خدا ) محقق ھوسکے ۔ شھید محراب ، امام متقین حضرت علی علیہ السلام فلسفۂ نماز کو اس طرح بیان فرماتے ھیں : ” خدا وند عالم نے نمازکو اس لئے واجب قرار دیا ہے تاکھ انسان تکبر سے پاک و پاکیزہ ھو جائے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نماز کے ذریعے خدا سے قریب ھو جاؤ ۔ نماز گناھوں کو انسان سے اس طرح گرا دیتی ہے جیسے درخت سے سوکھے پتےگرتے ھیں،نماز انسان کو( گناھوں سے) اس طرح آزاد کر دیتی ہےجیسے جانوروں کی گردن سے رسی کھول کر انھیں آزاد کیا جاتا ہے حضرت فاطمہ زھرا سلام اللہ علیھا مسجدنبوی میں اپنے تاریخی خطبہ میں اسلامی دستورات کے فلسفہ کو بیان فرماتے ھوئے نماز کے بارے میں اشارہ فرماتی ھیں : ” خدا وند عالم نے نماز کو واجب قرار دیا تاکہ انسان کو کبر و تکبر اور خود بینی سے پاک و پاکیزہ کر دے “ ھشام بن حکم نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے سوال کیا : نماز کا کیا فلسفہ ہے کہ لوگوں کو کاروبار سے روک دیا جائے اور ان کے لئے زحمت کا سبب بنے ؟ امام علیہ السلام نے فرمایا : نماز کے بہت سے فلسفے ھیں انہیں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ پھلے لوگ آزاد تھے اور خدا و رسول کی یاد سے غافل تھے اور ان کے درمیان صرف قرآن تھا امت مسلمہ بھی گذشتہ امتوں کی طرح تھی کیونکہ انھوں نے صرف دین کو اختیار کر رکھا تھا اور کتاب اور انبیاء کو چھوڑ رکھا تھا اور ان کو قتل تک کر دیتے تھے ۔ نتیجہ میں ان کا دین پرانا ( بے روح ) ھو گیا اور ان لوگوں کو جہاں جانا چاھئے تھا چلے گئے ۔ خدا وند عالم نے ارادہ کیا کہ یہ امت دین کو فراموش نہ کرے لھذا اس امت مسلمہ کے اوپر نماز کو واجب قرار دیا تاکہ ھر روز پانچ بار آنحضرت کو یاد کریں اور ان کا اسم گرامی زبان پر لائیں اور اس نماز کے ذریعہ خدا کو یاد کریں تاکہ اس سے غافل نہ ھو سکیں اور اس خداکو ترک نہ کر دیا جائے امام رضا علیہ السلام فلسفۂ نماز کے سلسلہ میں یوں فرماتے ھیں : نماز کے واجب ھونے کا سبب ،خدا وند عالم کی خدائی اور اسکی ربوبیت کا اقرار،شرک کی نفی اور انسان کا خداوند عالم کی بارگاہ میں خضوع و خشوع کے ساتھ کھڑا ھونا ہے ۔ نماز گناھوں کا اعتراف اور گذشتہ گناھوں سے طلب عفو اور توبہ ہے ۔ سجدہ ،خدا وند عالم کی تعظیم و تکریم کے لئے خاک پر چھرہ رکھنا ہے ۔ نماز سبب بنتی ہے کہ انسان ھمیشہ خدا کی یاد میں رہے اور اسے بھولے نھیں ،نافرمانی اور سر کشی نہ کرے ۔ خضوع وخشوع اور رغبت و شوق کے ساتھ اپنے دنیاوی اور اخروی حصہ میں اضافہ کا طلب گار ھو ۔ اس کے علاوہ انسان نماز کے ذریعہ ھمیشہ اورھر وقت خدا کی بارگاہ میںحاضر رہے اور اسکی یاد سے سر شاررہے ۔ خدا وند عالم کی بارگاہ میں نماز گناھوں سے روکتی اور مختلف برائیوں سے منع کرتی ہے سجدہ کا فلسفہ غرور و تکبر ، خود خواھی اور سر کشی کو خود سے دور کرنا اور خدا ئے وحدہ لا شریک کی یاد میں رھنا اور گناھوں سے دور رھنا ہے ۔ نماز عقل و وجدان کے آئینہ میں اسلامی حق کے علاوہ کہ جو مسلمان اسلام کی وجہ سے ایک دوسرے کی گردن پر رکھتے ھیں ایک دوسرا حق بھی ہے جس کو انسانی حق کھا جاتا ہے جو انسانیت کی بنا پر ایک دوسرے کی گردن پر ہے ۔ انھیں انسانی حقوق میں سے ایک حق ، دوسروں کی محبت اور نیکیوں اور احسان کا شکر یہ اداکرنا ہے اگر چہ مسلمان نہ ھو ں ۔ دوسروں کے احسانات اور نیکیاں ھمارے اوپر شکریے کی ذمہ داری کو عائد کرتی ھیں اور یہ حق تمام زبانوں ، ذاتوں ، ملتوں اور ملکوں میں یکساں اور مساوی ہے ۔ لطف اور نیکی جتنی زیادہ اور نیکی کرنے والا جتنا عظیم و بزرگ ھوشکر بھی اتنا ھی زیادہ اور بھتر ھونا چاھئے ۔ کیا خدا سے زیادہ کوئی اور ھمارے اوپر حق رکھتا ہے ؟ نہیں ۔ اس لئے کہ اس کی نعمتیں ھمارے اوپربے شمار ھیں اور خود اس کا وجود بھی عظیم او ر فیاض ہے ۔ خدا وند عالم نے ھم کو ایک ذرے سے خلق کیا اور جو چیز بھی ھماری ضروریات زندگی میں سے تھی جیسے ، نور و روشنی ، حرارت ، مکان ،ھوا ، پانی اعضاء و جوارح ، غرائز و قوائے نفسانی ، وسیع وعریض کائنات ،پودے و نباتات ،حیوانات ، عقل و ھوش اور عاطفہ و محبت ،وغیرہ ،کو ھمارے لئے فراھم کیا۔ ھماری معنوی تربیت کے لئے انبیاء علیھم السلام کو بھیجا ، نیک بختی اور سعادت کے لئے آئین وضع کئے ،حلال و حرام کو قرار دیا ۔ھماری مادی زندگی اور روحانی حیات کو ھر طرح سے دنیاوی اور اخروی سعادت حاصل کرنے اور کمال کی منزل تک پھونچنے کے وسائل فراھم کئے ۔ خدا سے زیادہ کس نے ھمارے ، ساتھ نیکی اور احسان کیا ہے کہ اس سے زیادہ اس حق شکر کی ادائیگی کا لائق اور سزاوار ھو ۔ انسانی وظیفہ اور ھماری عقل و وجدان ھمارے اوپر لازم قرار دیتی ھیں کہ ھم اس کی ان نعمتوں کا شکر ادا کریں اور ان نیکیوں کے شکرانہ میں اسکی عبادت کریں ،نماز پڑھیں ۔ چونکہ اس نے ھم کو خلق کیا ہے ،لھذا ھم بھی صرف اسی کی عبادت کریں اور صرف اسی کے بندے رھیں اور مشرق و مغرب کے غلام نہ بنیں ۔ نماز خدا کی شکر گزاری ہے اور صاحب وجدان انسان نماز کے واجب ھونے کو درک کرتا ہے ۔ جب ایک کتے کو ایک ھڈی کے بدلے میں جو اسکو دی جاتی ہے حق شناسی کرتا ہے اور دم ہلاتا ہے اور اگر چور یا اجنبی آدمی گھر میں داخل ھوتا ہے تو اس پر حملہ کرتا ہے تواگر انسان پروردگار کی ان تمام نعمتوں سے لا پرواہ اور بے توجہ ہو اور شکر گزار ی کے جذبہ سے جو کہ نماز کی صورت میں جلوہ گر ھوتاہے بے بھرھ ھو تو کیا ایسا انسان قدردانی اور حق شناسی میں کتے سے پست اور کمتر نھیں ہے ؟!!
نماز کی فضیلت رسول اکرم (ص)کی زبانی حمزہ بن حبیب صحابی رسول اکرم (ص) کہتے ھیں : میں نے رسول خدا (ص) سے نماز کے بارے میں سوال کیا تو آنحضرت (ص) نے اس کے خواص ، فوائد اور اسرار کے بارے میں اس طرح فرمایا : نماز دین کے قوانین میں سے ایک ہے ۔ پروردگار کی رضا و خوشنودی نما ز میں ہے ۔ نماز انبیاء علیھم السلام کا راستہ ہے ۔ نمازی، محبوب ملائکہ ہے ۔ نماز ھدایت ، ایمان اور نور ہے ۔ نماز روزی میں برکت ، بدن کی راحت ، شیطان کی ناپسندی اور کفار کے مقابلہ میں اسلحہ ہے ۔ نماز دعا کی اجابت اور اعمال کی قبولیت کا ذریعہ ہے ۔ نماز نمازی اور ملک الموت کے درمیان شفیع ہے ۔ نماز قبر میں انسان کی مونس ، اس کا بستر اور منکر و نکیر کا جواب ہے ۔ نماز قیامت کے دن نمازی کے سرکا تاج ، چھرے کا نور ، بدن کا لباس اور آتش جھنم کے مقابلہ میں سپر ہے ۔ نماز پل صراط کا پروانہ ، جنت کی کنجی ، حوروں کا مھر اور جنت کی قیمت ہے ۔ نماز کے ذریعہ بندہ بلند درجہ اوراعلی مقام تک پھونچتاہے اس لئے کہ نماز تسبیح و تھلیل ، تمجید و تکبیر ، تمجیدو تقدیس اور قول و دعاہے ۔
[ترمیم کریں] نماز کی اھمیت
۱۔ دین کا ستون ھر عبادت کا ایک ستون اور پایہ ھوتا ہے جس پر پوری عمارت کا دارو مدار ھوتا ہے ، اگرکبھی اس ستون پر کوئی آفت آجائے تو پوری عمارت زمیں بوس ھو جاتی ہے ۔ اسی طرح سے نماز ایک دیندار انسان کے دین و عقائد کےلئے ایک ستون کے مانند ہے ۔ حضرت علی علیہ السلام تمام مسلمانوں اور مومنین کو وصیت کرتے ھوئے فرماتے ھیں : ” اوصیکم بالصلوة ، و حفظھا فانھا خیر العمل و ھی عمود دینکم میں تم سب کو نماز کی اور اسکی پابندی کی وصیت کرتا ھوں اس لئے کہ نماز بھترین عمل اور تمھارے دین کا ستون ہے ۔ امام محمد باقر علیہ السلام فرماتے ھیں : ” بنی الاسلام علی خمسۃ: الصلوۃ و الزکاۃ و الحج و الصوم و الولایہ “ اسلام کی عمارت پانچ چیزوں پر استوار ہے : نماز ، زکات ، حج ، روزہ اور اھلبیت علیھم السلام کی ولایت ۔
۲۔ مومن کی معراج نماز انسان کو بلند ترین درجہ تک پہنچانے کا ذریعہ ہے جس کو معراج کھتے ھیں۔رسول خدا (ص) فرماتے ھیں : ” الصلوة معراج المومن (نماز مومن کی معراج ہے) ۔ کیونکہ نمازی اللہ اکبر کہتے ہی مخلوقات سے جدا ہو کر ایک روحانی اور ربانی سفر کا آغاز کرتا ہے جس سفر کا مقصد خالق و مالک سے راز و نیاز اور اس سے گفتگو کرنا ہے اور اپنی بندگی کا اظھار کرنا ، اس سے ھدایت و راہنمائی اور سعادت و خوش بختی طلب کرنا ہے ۔ ایک دوسری حدیث میں مرسل اعظم (ص) نے اس طرح فرمایا : ” الصلوة تبلغ العبد الی الدرجۃ العلیا (نماز بندے کو بلند ترین درجہ تک پہنچاتی ہے )۔
۳۔ ایمان کی نشانی نماز عقیدہ کی تجلی ، ایمان کا مظھر اور انسان کے خدا سے رابطہ کی نشانی ہے ۔ نماز کو زیادہ اھمیت دینا ایمان اور عقیدہ سے برخورداری کی علامت ہے اور نماز کو اھمیت نہ دینا منافقین کی ایک صفت ہے ۔ خدا وند عالم نے قرآن میں اسکو منافقین کی ایک نشانی قرار دیتے ھوئے فرمایا ہے : ” ان المنافقین لیخادعون اللہ وھو خادعھم و اذا قاموا الی الصلواة قاموا کسالی یراء ون الناس و لا یذ کرون اللہ الا قلیلا منافقین خدا کو فریب دینا چاھتے ہیں جبکہ خدا خود ان کے فریب کو ان کی طرف پلٹا دیتا ہے اور منافقین جب نماز کے لئے کھڑے ہوتے ہیں تو سستی اور کاھلی کی حالت میں نماز کے لئے کھڑے ہوتے ہیں اور لوگوں کو دکھاتے ہیں اور بہت کم اللہ کو یاد کرتے ہیں ۔
۴۔ شیعوں کی علامت نماز کی پابندی شیعوں کی ایک خاص علامت ھے۔ اسی لئے امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں : ” امتحنوا شیعتنا عند مواقیت الصلوۃ کیف محافظتھم علیھا ھمارے شیعوں کو نما ز کے وقت آزماؤ اور دیکھو کہ وہ کس طرح نماز کی پابندی کرتے ہیں ۔ ۵۔ شکر گزاری کا بھترین ذریعہ منعم ( نعمت دینے والے ) کا شکر ادا کرنا ھر انسان بلکہ ھر حیوان کی طبیعت میں شامل ہے ۔ اس لئے کہ شکر گزاری نعمت دینے والے کی محبت اور نعمت و برکت میں اضافہ کا سبب ہے ۔ شکر کبھی زبانی ھوتا ہے اور کبھی عملی ۔ نماز ایک عبادت اور خدا کی نعمتوں پر اظھار شکر ہے جو کہ زبانی اور عملی شکر کا ایک حسین مجموعہ ہے ۔
۶۔میزان عمل رسول خدا فرماتے ہیں : ” الصلواۃ میزان (“نماز ترازو ہے) ۔ امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں : ” اول ما یحاسب بہ العبد الصلوۃ فاذا قبلت قبل سائر عملہ و اذا ردت ردّعلیہ سائر عملہ “ سب سے پہلے انسان سے آخرت میں نماز کے ابرے میں پوچھا جائے گا اگر نماز قبول کر لی گیٔ تو تمام اعمال قبول کرلئے جائیں گے اور اگر رد کر دی گئی تو دوسرے سارے اعمال رد کر دیئے جائیں گے ۔ اس حدیث کی روشنی میں نماز دوسری عبادتوں کی قبولیت کے لئے میزان و ترازو کے مانند ہے نماز کو اس درجہ اھمیت کیوں نہ حاصل ھو اسلئے کہ نماز دین کی علامت و نشانی ہے ۔
۷۔ ہر عمل نما ز کا تابع : چونکہ نماز دین کی بنیاد اور اس کا ستون ہے ۔عمل کی منزل میں بھی ایسا ھی ہے کہ جو شخص نماز کو اھمیت دیتا ہے وہ دوسرے اسلامی دستورات کو بھی اہمیت دے گا اور جو نماز سے بے توجھی اور لا پرواھی کرے گا وہ دوسرے اسلامی قوانین سے بھی لا پرواھی برتے گا ۔ گویا نماز اور اسلام کے دوسرے احکام کے درمیان لازمہ اور ایک طرح کا رابطہ پایا جاتا ہے ۔ اسی لئے امام علی علیہ السلام نے محمد بن ابی بکر کو خطاب کرتے ھوئے فرمایا : ” و اعلم یا محمد ( بن ابی بکر ) ان کل شئی تبع لصلاتک و اعلم ان من ضیع الصلاة فھو لغیرھا اضیع“ اے محمد بن ابی بکر! جان لو کہ ہر عمل تمھاری نماز کا تابع اور پیرو ہے اور جان لو کہ جس نے نماز کو ضائع کیا اور اس سے لا پرواھی برتی وہ دوسرے اعمال کو زیادہ ضائع کرنے والا اور اس سے لا پرواھی برتنے والا ہے ۔
۸۔ روز قیامت پہلا سوال قیامت اصول دین میں سے ایک اور وہ دن ہے کہ جب تمام انسانوں کو حساب و کتاب کے لئے میدان محشر میں حاضر کیا جائے گا ۔ روایات کی روشنی میں اس دن سب سے پہلا عمل جس کے بارے میں انسان سے سوال کیا جائے گا، نماز ہے ۔ رسول اکرم (ص) نے فرمایا : ” اول ما ینظر فی عمل العبد فی یوم القیامۃ فی صلاتہ روز قیامت بندوں کے اعمال میں سب سے پھلے جس چیز کو دیکھا جائے گا وہ نماز ہے اور امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا : ” اول ما یحاسب بہ العبد الصلاۃ سب سے پہلے بندہ سے جس چیز کا حساب کیا جائے گا وہ نماز ہے ۔
۹۔ نمازی کے ساتھ ہر چیز خدا کی عبادت گزار : حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں : ” ان الانسان اذا کان فی الصلاۃ فان جسدہ و ثیابہ و کل شئی حولہ یسبح “ جب انسان حالت نماز میں ھوتا ہے تو اس کا جسم ،کپڑے اور اس کے ارد گرد موجودساری اشیاء خدا کی تسبیح و تھلیل کرتی ہیں ۔ امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا : ” ان کل شئی علیک تصلی فیہ یسبح معک ہر وہ چیز جس کے ساتھ تم نماز پڑھ رہے ھو تمھارے ساتھ ساتھ اللہ کی تسبیح کرتی ہے
۱۰ ۔ نمازی کا گھر یا آسمان والوں کے لئے نور امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرماتے ہیں : ” ان البیوت التی یصلی فیھا باللیل بتلاوۃ القرآن تضئی لاھل السماء کاتضئی نجوم السماء لاھل الارض “ جس گھر میں رات میں تلاوت قرآن کے ساتھ نماز پڑھی جاتی ہے وہ گھر آسمان والوں کے لئے ویسے ھی نور دیتا ہے جیسے ستارے زمین والوں کے لئے روشنی دیتے ہیں ۔
نماز کے اثرات اور فوائد نماز کے بہت سے فائدے اور اثرات ہیں جو کہ نمازی کی دنیاوی اور اخروی زندگی میں نمایاں ہوتے ہیں ۔ ان میں سے بعض کی طرف اشارہ کیا جا رھا ہے ۔
۱۔ گناھوں سے دوری کا ذریعہ انسان ہمیشہ ایک ایسی قوی اور طاقتور چیز کی تلاش میں رہتا ہے جو اسکوقبیح اور برے کاموں سے روک سکے تاکہ ایسی زندگی گذار سکے جو گناھوں کی زنجیر سے آزاد ھو ۔ قرآن کی نگاہ میں وہ قوی اور طاقتور چیز نماز ہے ۔ ” ان الصلاة تنھی عن الفحشاء و المنکر “ بے شک نماز گناھوں اور برائیوں سے روکتی ہے ۔ اس آیت کی روشنی میں نماز وہ طاقتور اور قوی شئی ہے جو انسان کے تعادل و توازن کو حفظ کرتی ہے اور اسکو برائیوں اور گناھوں سے روکتی ہے ۔
۲۔ گناھوں کی نابودی کا سبب چونکہ انسان جائز الخطا ہے اور کبھی کبھی چاھتے ھوئے یا نہ چاھتے ھوئے گناہ کا مرتکب ھو جاتا ہے اور ہر گناہ انسان کے دل پر ایک تاریک اثر چھوڑ جاتا ہے جو کہ نیک کام کے انجام دینے کی رغبت اور شوق کو کم اور گناہ کرنے کی طرف رغبت اور میل کو زیادہ کر دیتا ہے ۔ ایسی حالت میں عبادت ھی ہے جو کہ گناھوں کے ذریعہ پیدا ھونے والی تیرگی اور تاریکی کو زائل کر کے دل کو جلا اور روشنی دیتی ہے ۔ انھیں عبادتوں میں سے ایک نماز ہے ۔ خدا وندعالم نے فرماتا ہے : ” اقم الصلوة ان الحسنات یذھبن السیئات “ نماز قائم کرو کہ بے شک نیکیاں گناھوں کو نیست و نابود کر دیتی ہیں بے شک نماز گذشتہ گناھوں سے ایک عملی توبہ ہے اور پروردگار اس آیت میں گنھگاروں کو یہ امید دلارھا ہے کہ نیک اعمال اور نماز کے ذریعہ تمھارے گناہ محو و نابود ھو سکتے ہیں ۔
۳۔ شیطان کو دفع کرنے کا وسیلہ شیطان جو کہ انسان کا دیرینہ دشمن ہے اور جس نے بنی آدم کو ہر ممکنہ راستہ سے بھکانے اور گمراہ کرنے کی قسم کھا رکھی ہے ،مختلف راستوں ، حیلوں اور بھانوں سے انسان کو صراط مستقیم سے منحرف کرنے کی کوشش کرتا ہے ۔ مگر کچھ چیزیں ایسی ہیں جو اس کی تمام چالبازیوں پر پانی پھیر دیتی ھیں۔ انھیں میں سے ایک نماز ہے ۔ رسول اکرم نے فرماتے ہیں : ” لا یزال الشیطان یرعب من بنی آدم ما حافظ علی الصلوات الخمس فاذا ضیعھن تجرء علیہ و اوقعہ فی العظائم “ جب تک اولاد آدم نمازوں کو پابندی اور توجہ کے ساتھ انجام دیتی رھتی ہے اس وقت تک شیطان اس سے خوف زدہ رہتا ہے لیکن جیسے ان کو ترک کرتی ہے شیطان اس پر غالب ھو جاتا ہے اور اسکو گناھوں کے گڑھے میں ڈھکیل دیتا ہے ۔
۴۔ بلاؤں سے دوری نمازی کو خدا ، انبیاء علیھم السلام اور ائمہ اطھار علیھم السلام کے نزدیک ایک خاص درجہ و مقام حاصل ہے جس کی وجہ سے خدا وند عالم دوسرے لوگوں پر برکتیں نازل کرتا ہے اور ان سے بلاؤں اور عذاب کو دور کرتا ہے ۔ جیسا کہ حدیث قدسی میں خدا وند عالم فرماتا ہے : ” لولا شیوخ رکع و شباب خشع و صبیان رضع وبھائم رتع لصبت علیکم العذاب صباً“ ” اے گنھگار و! اگر بوڑہے نمازی ، خاشع جوان ، شیرخوار بچے اور چرنے والے چوپائے نہ ہوتے تو میں تمھارے گناھوں کی وجہ سے تم پر سخت عذاب نازل کرتا ۔