تصوف
وکیپیڈیا سے
بعض کے نزدیک تصوف ، صوف سے مشتق ہے ۔ یعنی وہ لوگ صوف ’’گدڑی یا کمبل‘‘ کے کپڑے پہنتے تھے اس لیے صوفی کہلائے۔ بعض اسے اصحاب صفہ سے منسوب کرتے ہیں۔ کیونکہ انھوں نے اپنی زندگیاں خدمت دین کے لیے وقف کر رکھی تھیں۔ اور بعض نے ا سے صفا پاک سے مشتق مانا ہے۔ بعض علما کے نزدیک تصوف کی اصطلاح دوسری تیسری صدی ہجری میں بغداد والوں نے ایجاد کی۔ امام قشیری کی تحقیق کے مطابق یہ لفظ دوسری صدی ہجری میں رواج پا چکا تھا۔ کشف الظنون کے مطابق جابر بن حیان یا ابوہاشم کو فی المتوفی 150ھ نے سب سے پہلے یہ لقب اختیار کیا۔ شیخ ابو النصر سریع الطوسي المتوفی 378ھ نے اپنی تصینف کتاب اللمع میں لکھا ہے کہ یہ لفظ حسن بصری کے زمانے میں رائج تھا۔ ایک خیال یہ بھی ہے کہ اصطلاح حدیث میں جس کو احسان کہا جاتا ہے۔ پہلی صدی ہجری کے آخر میں اسی کو تصوف کہنے لگے۔ ابوالقاسم قشیری کے بیان کے مطابق جب مسلمانوں کی حکومت دوردراز ملکوں تک پھیل گئی اور اسلام میں ملوکیت کا آغاز ہوا۔ تو مسلمانوں میں خودبخود دو گروہ بن گئے۔ ایک برسراقتدار طبقہ اور دوسرے زہاد و عباد کاگروہ ۔ ابتدائے اسلام میں فقر و جہاد یکجا تھے۔ مگر دور ملوکیت میں جہاد کی جگہ رنگینیوں نے لے لی اور فقر زہاد عباد کے حصے میں آیا۔ اور وہ گوشہ نشین ہو کر عبادت الہی میں مصروف ہوگئے۔ ان میں وہ لوگ بھی تھے جو مسلمانوں کی کشمکش سے بیزار ہو کر عزلت نشین ہوگئے تھے۔ عباسی دور میں اسلامی تصوف یونانی رہبانیت اور ہندو یوگ سے بھی متاثر ہوا۔
صوفیا کے نزدیک اسلامی علوم کی دو قسمیں ہیں ایک ظاہری اور دوسری باطنی۔ ظاہری علوم سے مراد شریعت ہے، جو عوام کے لیے ہے۔ اور باطنی علم وہ ہے جو ان کے کہنے کے مطابق رسول اللہ نے اپنے چند صحابہ حضرت ابوبکر صدیق ، حضرت علی ، اور حضرت ابوذر کو تعلیم کیا۔ حضرت ابوبکر سے حضرت سلیمان فارسی اور حضرت علی سے حضرت حسن بصری فیضیاب ہوئے۔ صوفیا کے نزدیک تصوف کے چاردرجے ہیں۔
- شریعت
- طریقت
- حقیقت
- معرفت
بعض کے نزدیک طریقت میں پہنچ کر شریعت کی پابندیاں ختم ہوجاتی ہیں او رانسان فنافی الشیخ ، فنافی الرسول کی منزلوں سے گزر کر فنافی اللہ کی منزل میں پہنچ جاتا ہے۔ مسلمانوں کے دور انحطاط میں اس میں اور بھی متعقدات شامل ہوتے گئے اور اس کی بے شمار شاخیں بن گئیں۔ تصوف پر بہت سی کتابیں لکھی گئیں جن میں شیخ عبدالقادر کی غنیۃ الطالبین ، داتا گنج بخش کی کتاب کشف المحجوب اور شیخ شہاب الدین سہروردی کی عوارف المعارف بہت مشہور ہیں۔