لاہور
وکیپیڈیا سے
لاہور | |
عمومی معلومات | |
صوبہ | پنجاب |
رقبہ | 2,014 مربع کلومیٹر |
کالنگ کوڈ | 042 |
منطقۂ وقت | پاکستان کا معیاری وقت (UTC+5) |
حکومت | |
ناظم | میاں عامر محمود |
یونين کونسلوں | 150 |
علامت | |
[ترمیم کریں] تاریخ
اس شہر کی ابتدائی تاریخ کے بارے میں روائیت ہے کہ رام چندر جی کے بیٹے "لوہو" نے یہ بستی آباد کی تھی۔ قدیم ہندو "پرانوں" میں لاہور کا نام "لوہ پور" یعنی لوہ کا شہر ملتا ہے۔ راجپوت دستاویزات میں اسے "لوہ کوٹ" یعنی لوہ کا قلعہ کے نام سے پکارا گیا ہے۔ نویں صدی عیسوی کے مشہور سیاح "الادریسی" نے اسے "لہاور" کے نام سے موسوم کیا ہے۔ یہ قدیم حوالہ جات اس بات کے غماز ہیں کہ اوائل تاریخ سے ہی یہ شہر اہمیت کا حامل تھا۔ درحقیقت اس کا دریا کے کنارے پر اور ایک ایسے راستے پر جو صدیوں سے بیرونی حملہ آوروں کی رہگزر رہا ہے، واقع ہونا اس کی اہمیت کا ضامن رہا ہے۔"فتح البلادن" میں درج سنہ ۶۶۴ عیسوی کے واقعات میں لاہور کا ذکر ملتا ہے جس سے اس کا اہم ہونا ثابت ہوتا ہے۔ساتویں صدی عیسوی کے اواخر میں لاہور ایک راجپوت چوہان بادشاہ کا پایہٗ تخت تھا۔ فرشتہ کے مطابق سنہ ۶۸۲ عیسوی میں کرمان اور پشاور کےمسلم پٹھان قبا ئل راجہ پر حملہ آور ہوئے۔ پانچ ماہ تک لڑائی جاری رہی اور بالآخر سالٹ رینج کے گکھڑ راجپوتوں کے تعاون سے وہ راجہ سے اس کے کچھ علاقے چھیننے میں کامیاب ہو گئے۔ نویں صدی عیسوی میں لاہور کے ہندو راجپوت چتوڑ کے دفاع کے لئے مقامی فوجوں کی مدد کو پہنچے۔دسویں صدی عیسوی میں خراسان کا صوبہ دارسبکتگین اس پر حملہ آور ہوا۔ لاہور کا راجہ جے پال جس کی سلطنت سرہند سے لمگھان تک اور کشمیر سے ملتان تک وسیع تھی مقابلہ کے لئے آیا۔ایک بھٹی راجہ کے مشورے پر راجہ جے پال نے پٹھانوں کے ساتھ اتحاد کر لیا اور اس طرح وہ حملہ آور فوج کو شکست دینے میں کامیاب رہا۔ غزنی کے تخت پر قابض ہونے کے بعد سبکتگین ایک دفعہ پھر حملہ آور ہوا۔ لمگھان کے قریب گھمسان کا رن پڑا اور راجہ جے پال ملغوب ہو کر امن کا طالب ہوا۔ طے یہ پایا کہ راجہ جے پال تاوان جنگ کی ادائیگی کرے گا اور سلطان نے اس مقصد کے لئےہرکارے راجہ کے ہمرکاب کئے۔ لاہور پہنچ کر راجہ نے معاہدے سے انحراف کیا اور سبکتگین کے ہرکاروں کو مقید کر دیا۔ اس اطلاع پر سلطان غیض وغضب میں دوبارہ لاہور پر حملہ آور ہوا۔ ایک دفعہ پھر میدانِ کارزار گرم ہوا اور ایک دفعہ پھر جے پال کو شکست ہوئی اور دریائے سندھ سے پرے کا علاقہ اس کے ہاتھ سے نکل گیا۔ دوسری دفعہ مسلسل شکست پر دلبرداشتہ ہو کر راجہ جے پال نے لاہور کے باہر خود سوزی کر لی۔
معلوم ہوتا ہے کہ سلطان کا مقصد صرف راجہ کو سبق سکھانا تھا کیونکہ اس نے مفتوحہ علاقوں کو اپنی سلطنت میں شامل نہیں کیا اور ۱۰۰۸ عیسوی میں جب سبکتگین کا بیٹا محمود ہندوستان پر حملہ آور ہوا تو جے پال کا بیٹا آنند پال ایک لشکر جرار لے کر پشاور کے قریب مقابلہ کے لئے آیا۔ محمود کی فوج نے آتش گیر مادے کی گولہ باری کی جس سے آنند پال کے لشکر میں بھگدڑ مچ گئی اور ان کی ہمت ٹوٹ گئی۔ نتیجتاًکچھ فوج بھاگ نکلی اور باقی کام آئی۔ اس شکست کے باوجود لاہور بدستور محفوظ رہا۔ آنند پال کے بعد اس کا بیٹا جے پال تخت نشین ہوا اور لاہور پر اس خاندان کی عملداری ۱۰۲۲ تک برقرار رہی حتٖی کہ محمود اچانک کشمیر سے ہوتا ہوا لاہور پر حملہ آور ہوا۔ جے پال اور اس کا خاندان اجمیر پناہ گزین ہوا۔ اس شکست کے بعد لاہور غزنوی سلطنت کا حصہ بنا اور پھر کبھی بھی کسی ہندو سلطنت کا حصہ نہیں رہا۔محمود کے پوتے مودود کے عہدِ حکومت میں راجپوتوں نے شہر کو واپس لینے کے لئے چڑھائی کی مگر چھ ماہ کے محاصرے کے بعد ناکام واپس ہوئے۔
لاہور پر قبضہ کرنے کے بعد محمود غزنوی نے اپنے پسندیدہ غلام ملک ایاز کو لاہور کا گورنر مقرر کیا جِس نےشہرکے گرد دیوار قائم کرنے کے ساتھ ساتھ قلعہ لاہور کی بھی بنیاد رکھی۔ ملک ایاز کا مزار آج بھی بیرون ٹکسالی دروازہ لاہور کے پہلے مسلمان حکمران کے مزار کے طور پر جانا جاتا ہے۔ غزنوی حکمرانوں کے ابتدئی آٹھ حکمرانوں کے دور میں لاہور کا انتظام صوبہ داروں کے ذریعہ چلایا جاتا تھا تاہم مسعود ثانی کے دور میں(۱۱۱۴۔ ۱۰۹۸) دارالحکومت عارضی طور پر لاہور منتقل کر دیا گیا۔اس کے بعد غزنوی خاندان کے بارہویں تاجدار خسرو کے دور میں لاہور ایک دفعہ پھر پایہِ تخت بنا دیا گیا اور اس کی یہ حیثیت 1186میں غزنوی خاندان کے زوال تک برقرار رہی۔ غزنوی خاندان کے زوال کے بعد غوری خاندان اور خاندانِ غلاماں کے دور میں لاہور سلطنت کے خلاف سازشوں کا مرکز رہا۔ درحقیقت لاہور ہمیشہ پٹھانوں کے مقابلہ میں مغل حکمرانوں کی حمایت کرتا رہا۔1241 عیسوی میں چنگیز خان کی فوجوں نے سلطان غیاث الدین بلبن کے بیٹے شہزادہ محمد کی فوج کو راوی کے کنارے شکست دی اور حضرت امیر خسرو کو گرفتار کیا۔ اس فتح کے بعد چنگیز خان کی فوج نے لاہور کو تاراج کر دیا۔
خلجی اور تغلق شاہوں کے ادوار میں لاہور کو کوئی قابلِ ذکر اہمیت حاصل نہ تھی اور ایک دفعہ گکھڑ راجپوتوں نے اسے لوٹا۔ 1397 میں امیر تیمور برصغیر پر حملہ آور ہوا اور اس کے لشکر کی ایک ٹکڑی نے لاہور فتح کیا۔ تاہم اپنے پیشرو کے برعکس امیر تیمور نے لاہور کو تاراج کرنے سے اجتناب کیا اور ایک افغان سردار خضر خان کو لاہور کا صوبہ دار مقرر کیا۔اس کے بعد سے لاہور کی حکومت کبھی حکمران خاندان اور کبھی گکحڑ راجپوتوں کے ہاتھ رہی یہاں تک کہ 1436 میں بہلول خان لودھی نے اسے فتح کیا اور اسے اپنی سلطنت میں شامل کر لیا۔ بہلول خان لودھی کے پوتے ابراہیم لودھی کے دورِ حکومت میں لاہور کے افغان صوبہ دار دولت خان لودھی نے علمِ بغاوت بلند کیا اور اپنی مدد کے لئےمغل شہزادے بابر کو پکارا۔
[ترمیم کریں] لاہور مغلیہ دور میں
بابر پہلے سے ہی ہندوستان پر حملہ کرنے کے بارے میں سوچ رہا تھا اور دولت خان لودھی کی دعوت نے اس پر مہمیز کا کام کیا۔ لاہور کے قریب بابر اور ابراہیم لودھی کی افواج میں پہلا ٹکراؤ لاہور کے نواح میں ہوا جس میں بابر فتحیاب ہوا تاہم صرف چار روز کے وقفہ کے بعد اس نے دہلی کی طرف پیشقدمی شروع کر دی۔ ابھی بابر سرہند کے قریب ہی پہنچا تھا کہ اسےدولت خان لودھی کی سازش کی اطلاع ملی جس پر وہ اپنا ارادہ منسوخ کر کے لاہور کی جانب بڑھا اور مفتوحہ علاقوں کو اپنے وفادار سرداروں کے زیرِانتظام کرکے کابل واپس ہوا۔ اگلے برس لاہور میں سازشوں کا بازار گرم ہونے کی اطلاعات ملنے پر بابر دوبارہ عازمِ لاہور ہوا۔ مخالف افواج راوی کے قریب مقابلہ کے لئےسامنے آئیں مگر مقابلہ شروع ہونے سے پہلے ہی بھاگ نکلیں۔ لاہور میں داخل ہوئے بغیر بابر دہلی کی طرف بڑھا اور پانی پت کی لڑائی میں فیصلہ کن فتح حاصل کرکے دہلی کے تخت پر قابض ہوا۔ اس طرح ہندوستان میں مغلیہ سلطنت کی ابتداء لاہور کے صوبہ دار کی بابر کو دعوت سے ہوئی۔
اٹک | بہاولنگر | بہاولپور | بھکر | چکوال | ڈیرہ غازی خان | چکوال | فیصل آباد | گوجرانوالا | گجرات | حافظ آباد | جھنگ | جہلم | قصور | خانیوال | خوشاب | لاہور | لیہ | لودھراں | منڈی بہاؤ الدین | میانوالی | ملتان | مظفر گڑھ| ناروال| ننکانہ صاجب| اوکاڑہ| پاکپتن| رحیم یار خان| راجن پور| راولپنڈی| ساہیوال| سرگودھا| شیخوپورہ| سیالکوٹ| ٹوبہ ٹیک سنگھ| وہاڑی
زمرہ جات: شہر (پاکستان) | پنجاب | شہر