Web - Amazon

We provide Linux to the World


We support WINRAR [What is this] - [Download .exe file(s) for Windows]

CLASSICISTRANIERI HOME PAGE - YOUTUBE CHANNEL
SITEMAP
Audiobooks by Valerio Di Stefano: Single Download - Complete Download [TAR] [WIM] [ZIP] [RAR] - Alphabetical Download  [TAR] [WIM] [ZIP] [RAR] - Download Instructions

Make a donation: IBAN: IT36M0708677020000000008016 - BIC/SWIFT:  ICRAITRRU60 - VALERIO DI STEFANO or
Privacy Policy Cookie Policy Terms and Conditions
ریاستہائے متحدہ امریکہ - وکیپیڈیا

ریاستہائے متحدہ امریکہ

وکیپیڈیا سے

يونائيٹڈ سٹيٹ اف امريكہ ايكـ ملكـ جس كى زمينى سرحديں كينیڈا اور ميكسيكو سے ملتى ہیں


United States of America
 امریکہ کا پرچم امریکہ کا Coat of Arms
پرچم Coat of Arms
شعار: E pluribus unum (‏1789 تا 1956‏)
‏(لاطینی: "بہت سوں میں سے، ایک")‏
In God We Trust (‏1956 تا حال‏)‏ ‎
‎ ‏(انگریزی: "ہم اعتماد کرتے ہیں خدا پر")‏

ترانہ: "The Star-Spangled Banner"
 امریکہ کا محل وقوع
دارالحکومت واشنگٹن، ڈی۔ سی۔
عظیم ترین شہر نیو یارک شہر
دفتری زبان(یں) وفاقی سطح پر کوئی نہیں؛ عملی طور پر انگریزی
نظام حکومت
صدر ‎
‎ نائب صدر
وفاقی جمہوریہ
جارج ڈبلیو۔ بش (ر) ‎
‎ ڈک چینی (ر)
آزاد
اعلان آزادی
تسلیمشدہ
متحدہ سلطنت برطانیہ سے
4 جولائی 1776ء
3 ستمبر 1783ء
رقبہ
 - کل
 
 - پانی (%)
 
9,631,418 مربع کلومیٹر (3 را)
3,718,711 مربع میل
4.87
آبادی
 - تخمینۂ 2006
 - 2000 مردم شماری
 - کثافت
 
298,217,215 (3 را)
281,421,906
30 فی مربع کلومیٹر(143 واں)
83 فی مربع میل
جی۔ ڈی۔ پی۔ (پی۔ پی۔ پی۔)
 - مجموعی
 - فی کس
2006 تخمینہ
13,049 ارب ڈالر (پہلا)
43,555 ڈالر (3 را)
ایچ۔ ڈی۔ آئی۔ (2003) 0.994 (10 واں) – بلند
سکہ امریکی ڈالر (USD)
منطقۂ وقت
 - گرما (ڈی۔ ایس۔ ٹی۔)
(یو۔ ٹی۔ سی۔ 5- تا 10-)
(یو۔ ٹی۔ سی۔ 4- تا 10-)
انٹرنیٹ ٹی۔ ایل۔ ڈی۔ .us .gov .edu .mil .um
کالنگ کوڈ +1
امریکہ کا درجہ بلحاظ رقبہ پر چین سی اختلاف پایا جاتا جس وجہ اس کا درجہ کبھی تیسرا اور کبھی چوتھا تسلیم کیا جاتا ہے۔

فہرست

[ترمیم کریں] تاريخ

پانچ صدیاں قبل تک ساری مشرقی دنیا یعنی براعظم یورپ، افریقہ اور ایشیا مغربی نصفکرہ کے ممالک امریکہ، کینیڈا اور دیگر ممالک کے وجود سے بالکل بے خبر تھی۔ پندرہویں صدی کے اواخر میں یورپی مہم جوئی کا آغاز ہوا تو یکے بعد دیگرے مختلف ممالک اور خطے دریافت ہوتے چلے گئے۔

12 اکتوبر 1492 ءکو کولمبس امریکہ کے مشرقی ساحل کے قریب بہاماز پہنچا۔ یہ مقام امریکہ کے جنوب مشرقی ساحل پر فلوریڈا کے قریب واقع ہے۔ امریکہ کی سرزمین پر کسی یورپی کا یہ پہلا قدم تھا۔ پھر یکے بعد دیگرے مختلف مقامات کی دریافت کا سلسلہ چل پڑا۔ 1524 ءمیں فرانسیسی مہم جو ”جیووانی ویرازانو“ (Giovanni Verra Zano) ایک مہم لے کرکیرولینا سے شمال کی طرف بڑھتا ہوا نیویارک میں داخل ہوا۔ 1579 ءمیں فرانسسزڈریک (Francies Drake) مغربی ساحل پر سان فرانسیسکو کی خلیج میں داخل ہوا اور ایک برطانوی نوآبادی کی بنیاد رکھی۔ 1607 ءمیں کیپٹن جان سمتھ تین جہازوں میں 105 سپاہی لے کر ورجینیا کے ساحل پر اترا اور جیمز ٹائون کے نام سے پہلی برطانوی نوآبادی قائم کی۔ 1624 ءمیں البانی اور نیویارک کے علاقوں میں ولندیزی نوآبادیاں” نیو نیدرلینڈز “کے نام سے قائم ہوئیں۔

اس طرح مختلف یورپی ممالک کی نوآبادیاں بنتی چلی گئیں۔ ان نو آبادیوں میں آپس میں چپقلش اور بعض اوقات جنگ و جدل تک نوبت پہنچتی رہی۔ اس کے ساتھ ہی برطانوی حکومت نے اپنی نو آبادیوں سے واقعتا نوآبادیاتی سلوک شروع کر دیا۔ ان کا استحصال کرنے کے لئے آئے دن نت نئے ٹیکس عائد ہونے لگے۔ جس کی وجہ سے ان میں بے چینی اور بغاوت کے آثار پیدا ہونے لگے جو آخرکار تحریک آزادی کی شکل اختیار کر گئے۔ ہم یہاں مختصر طور پر چند مثالیں پیش کر کے اپنی بات کو واضح کریں گے۔

  • یکم دسمبر 1660 ءکو برطانوی پارلیمان نے جہازرانی کا قانون (Navigation Act) پاس کیا جس میں نوآبادیات کے ساتھ تجارت کو اپنے مفادات کے مطابق ضابطوں کا پابند بنایا گیا۔ 8 ستمبر 1664 ءکو برطانوی فوجی دستوں نے نیو نیدرلینڈز پر قبضہ کر لیا۔ 1676ءمیں نیتھانیل بیکن (Nathaneil Bacon) نے برطانوی آمریت کے خلاف کسانوں کی بغاوت کی قیادت کی۔ بیکن کا انتقال ہو گیا اور بغاوت ناکام ہو گئی۔ بیکن کے 23 ساتھیوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔
  • 6 اپریل 1712 ءکو نیویارک میں غلاموں نے بغاوت کر دی۔ باغیوں میں سے 21 قتل کر دیئے گئے، 6 نے خودکشی کر لی، 71 کو ملک بدر کر دیا گیا۔
  • 1764 ءمیں برطانوی حکومت نے شوگر ایکٹ (Sugar Act) نافذ کرکے نوآبادیات میں مختلف خوردنی اشیاءپر ٹیکس لگا دیا۔
  • 1765ءمیں برطانوی پارلیمینٹ نے اپنی افواج کے اخراجات پورے کرنے کے لئے سٹمپ ایکٹ (Stamp Act) پاس کیا۔ ا سی سال 7 اکتوبر کو نوآبادیوں نے نیویارک میں ایک کانگریس بلا کر عوامی حقوق کا اعلامیہ (Declaration of rights) جاری کیا۔
  • 1767ءمیں چائے اور دیگر کئی اشیاءپر ٹیکس لگا دیا گیا۔
  • 1770ءمیں برطانوی دستوں نے بوسٹن میں مظاہرہ کرنے والے ایک ہجوم پر گولی چلا دی، پانچ آدمی ہلاک ہوئے۔ جن میں مظاہرین کا لیڈر بھی شامل تھا۔ یہ واقعہ بوسٹن کا قتل عام (Boston massacre) کہلایا۔ مئی 1773ءمیں بوسٹن، نیویارک اور فلاڈلفیا میں ایسٹ انڈیا کمپنی کے چائے کے جہاز واپس کر دیئے گئے۔ چائے پر لگائے جانے والے ٹیکس کے خلاف 4 اکتوبر کو چائے کے ایک جہاز کو آگ لگا دی گئی اور 16 دسمبر کو بوسٹن میں چائے کا سٹاک جہازوں سے سمندر میں پھینک دیا گیا۔ یہ واقعہ بوسٹن ٹی پارٹی (Boston tea party)کہلایا۔
  • 5 ستمبر 1774ءکو فلاڈلفیا میں پہلی براعظمی کانگریس (First continental congress) منعقد ہوئی جس میں برطانوی حکومت کے خلاف (Civil disobedience) شہری عدم تعاون کی قرارداد منظور ہوئی۔
  • 23 مارچ 1775ءکو ورجینیا کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے پیٹرک ہنری (Patrick Henry) نے یہ تاریخی الفاظ کہے۔

Give me Liberty or give me Death

”مجھے آزادی دو یا موت دے دو“

  • 1776ءمیں 7 جون کو براعظمی کانگریس میں رچرڈ ہنری لی نے قرارداد پیش کی کہ ” ان متحدہ نوآبادیات کو آزاد اور خودمختار رہنے کا حق حاصل ہے۔“
  • 2 جولائی کو یہ قرارداد منظور ہوئی اور 4 جولائی کو اعلان خود مختاری (Declaration of Independence) پر دستخط ہو گئے۔

مارچ 1782 ءمیں برطانوی کابینہ نے امریکہ کی خودمختاری کو تسلیم کر لیا۔ 1789ءمیں جارج واشنگٹن امریکہ کے صدر منتخب ہو گئے اور 1796ءمیں وہ اس عہدے سے ریٹائر ہو گئے۔ جارج واشنگٹن امریکہ کے عظیم رہنما تھے ان کے بارے میں First in war, first in peace, first in the hearts of his countrymen یعنی ”جنگ میں بھی ادّل امن میں بھی اوّل اور اپنے ہم وطنوں کے دلوں میں بھی اول کا مقولہ بہت مشہور ہے۔ واشنگٹن نے عہدہ صدارت سے سبکدوش ہوتے وقت اپنی قوم کو خبردار کیا تھا کہ ”کسی غیر ملکی حکومت سے کبھی کوئی مستقل الائنس (اتحاد) نہ بنانا۔

اب ہم 4 جولائی کے اعلان آزادی پر واپس آتے ہیں اور تاریخ کے اوراق میں سے اس اعلان آزادی پر دستخط کرنے والے وطن پرستوں پر برطانوی افواج کے ہاتھوں روا رکھے جانے والے انسانیت سوز وحشیانہ مظالم کا کھوج لگاتے ہیں۔ یہ نہایت دلدوز کہانی ہے اور دنیا بھر کے حریت پسندوں کے لئے سبق آموز ہے۔

ان عظیم لوگوں کی کل تعداد 56 تھی جنہوں نے اعلان پر دستخط کئے۔ یہ نہایت آسودہ حال اور خوش حال لوگ تھے۔ ان میں سے 14 قانون دان تھے ، 13 کا تعلق عدلیہ سے تھا یعنی جج تھے، 11 تاجر تھے، 12 زمیندار اور جنگلات کے مالک تھے ایک پادری اور تین ڈاکٹر تھے۔ دو کا تعلق دیگر معزز پیشوں سے تھا۔ ان سب انقلابیوں نے اعلان آزادی پر یہ جانتے ہوئے بھی دستخط کئے کہ اس کی سزا انہیں گرفتاری اور موت کی شکل میں ملے گی۔

  1. ان میں 5 دستخط کنندگان کو برطانوی قابض افواج نے گرفتار کر کے غداری کے الزام میں اتنے ظالمانہ تشدد کا نشانہ بنایا کہ وہ اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔
  2. بارہ انقلابیوں کے گھر تباہ و برباد کر کے نذر آتش کر دیئے گئے۔
  3. دو انقلابیوں کے بیٹے جو انقلابی عسکری دستوں میں کام کر رہے تھے جان سے مار دیئے گئے۔
  4. ایک اور انقلابی کے دو بیٹے گرفتار کر کے غائب کر دیئے گئے۔
  5. 56 انقلابیوں میںسے 9 عسکری جدوجہد میں شریک رہے اور انقلاب کی اذیت ناک تکالیف اور زخموں سے ہلاک ہو گئے۔
  6. ورجینیا کے ایک خوشحال اور مالدار تاجر نے دیکھا کہ اس کے تجارتی جہاز سمندروں میں سے برطانوی بحریہ قبضہ کر کے لے گئی ہے۔ اس نے اپنا گھر اور اپنی بقیہ جائیداد بیچ کر اپنے قرضے ادا کئے اور انتہائی مفلسی کی موت قبول کی۔
  7. ایک اور انقلابی تھامس میک کین (Mckean) کا برطانوی فوج نے اس قدر پیچھا کیا کہ اسے بار بار اپنی سکونت تبدیل کرنی پڑی اور اپنے خاندان کو ادھر ادھر منتقل کرنا پڑا۔ وہ کانگریس میں بغیر تنخواہ کام کرتا رہا۔ اس کی فیملی مسلسل روپوشی کے عالم میں رہی۔ اس کا سارا اسباب خانہ لوٹ لیا گیا ۔اور اس کو بقیہ عمر ناداری کے عالم میں گزارنی پڑی
  8. برطانوی فوج کے سپاہیوںاور لٹیرے رضاکاروں نے ولیم ایلری (Welliam Ellery) لائمن ہال (Lyman Hall) جارج کلائمر (George Clymer) جارج والٹن (George Walton) بٹن گوئینٹ (Button Gwinnet)تھامس ہیورڈ جونیئر (Thomas Heyward Jr.) ایڈورڈ رٹلیج (Edward Rutledge) اور آرتھر مڈلٹن (Arthur Middleton) کی تمام جائیدادیں لوٹ کر تباہ و برباد کر دیں۔
  9. یارک ٹائون کے معرکہ میں تھامس نیلسن (Thomas Nelson) نے نوٹ کیا کہ برطانوی جنرل کارنوالس نے نیلسن کے گھر پر قبضہ کر کے اسے اپنا ہیڈکوارٹر بنا لیا ہے۔ اس نے خاموشی سے انقلاب کے جنرل واشنگٹن کو مشورہ دیا کہ اس کا گھر گولہ باری سے اڑا دیا جائے۔ گھر تباہ ہو گیا اور نیلسن قلاش ہو کر مرا۔
  10. فرانسیس لیوس (Fracis Lewis) کا گھر تباہ کر دیا گیا اور اس کی بیوی کو جیل میں ڈال دیا گیا۔ جہاں وہ چند ماہ بعد خالق حقیقی سے جا ملی۔
  11. جان ہارٹ (John Hart) کو اس کی بیوی کے بستر مرگ سے جدا کر دیا گیا۔ اس کے 13 بچے اپنی جانیں بچانے کے لئے بھاگ گئے۔ جان ہارٹ کے کھیت اور اس کی آٹا پیسنے کی مل تباہ و برباد کر دی گئی۔ ایک سال تک وہ جنگلوں اور غاروں میں چھپا پھرتا رہا اور جب وہ گھر واپس آیا تو اس کی بیوی مرچکی تھی اور بچے نہ معلوم کہاں چلے گئے تھے۔ اس کے کچھ عرصہ بعد وہ خود بھی نہایت دل شکستگی کے عالم میں فوت ہو گیا۔
  12. رابرٹ مورس (Robert Moriss) اور فلپ لیونگ سٹون (Philip Levingstone) کو بھی اسی نوع کے حالات سے گزرنا پڑا۔
  13. 22 ستمبر 1776 ءکو برطانوی افواج نے تحریک آزادی کے ایک رہنما ناتھن ھیل (Nathan Hale)کو جاسوسی کے الزام میں موت کے گھاٹ اتار دیا۔ مرنے سے پہلے اس کی زبان سے یہ تاریخی الفاظ ادا ہوئے:”مجھے افسوس ہے کہ وطن کو دینے کے لئے میرے پاس صرف ایک زندگی ہے۔“

اسی طرح کی قربانیوں سے امریکی انقلاب کے سبھی رہنمائوں کو گزرنا پڑا۔ یہ سب لوگ خوشحال اور تعلیم یافتہ لوگ تھے۔ جرائم پیشہ، فسادی یا تخریب کار قسم کے لوگ نہیں تھے۔ یہ سب حکومت برطانیہ کے رعایا تھے اور اسی نسل سے تعلق رکھتے تھے جس سے حکمرانوں کا تعلق تھا۔ امریکہ کے سبھی نوآبادکار لوگ انگلینڈ، سکاٹ لینڈ، آئرلینڈ، ویلز اور یورپ کے مختلف ممالک سے آئے تھے۔ ان کا مذہب بھی وہی تھا جو حکمرانوں کا تھا۔ یہ سب حضرت مسیح کے ماننے والے رومن کیتھولک اور پروٹسٹنٹ تھے۔ اگر یہ خاموش بیٹھے رہتے تو انہیں حکومت میں بڑے بڑے عہدے مل سکتے تھے اور یہ نہایت پرآسائش زندگی گزار سکتے تھے۔ لیکن ان عظیم انقلابی لوگوں نے امریکی عوام کو برطانوی سامراج کی لعنت سے نجات دلانے کے لئے 4جولائی 1776 ءکو ملک کے کونے کونے سے فلاڈلفیا کے مقام پر جمع ہو کر کانگریس کے آئینی کنونشن میں شامل ہوکر اعلان خود مختاری پر دستخط کئے۔ انہوں نے اپنے آرام و آسائش پر آزادی کو ترجیح دی اور یہ عہد کیا کہ

”اس اعلان آزادی و خودمختاری کی تائید کے لئے پروردگار عالم کی قوت حاکمہ کی حفاظت اور مدد پر پورا بھروسہ کرتے ہوئے ہم آپس میں یہ عہد کرتے ہیں کہ ہم اپنے حصول مقصد کے لئے اپنی جانوں، اپنی جائیدادوں اور اپنی عزت و ناموس کے ساتھ اس کا تحفظ اور اس کی تائید کریں گے۔“

اس عزم و استقلال کے نتیجے میں انقلابی قیادت کو جن مشکلات اور مصائب کا مقابلہ کرنا پڑا ان کا مختصر بیان اوپر کی سطور میں آ چکا ہے۔ لیکن ان انقلابی قائدین کے سامنے واضح منزل تھی۔ اپنے ملک کی آزادی و خودمختاری۔ وہ اس منزل کی طرف ثابت قدمی سے بڑھتے رہے اور آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ اعلان خود مختاری کے225 سال بعد ترقی و تعمیر کی تمام منزلیں طے کر کے امریکہ دنیا کی سپر طاقت بن چکا ہے۔

[ترمیم کریں] طريق حكومت

[ترمیم کریں] سياست

[ترمیم کریں] لوگ

[ترمیم کریں] بيرونى روابط

دیگر زبانیں
Our "Network":

Project Gutenberg
https://gutenberg.classicistranieri.com

Encyclopaedia Britannica 1911
https://encyclopaediabritannica.classicistranieri.com

Librivox Audiobooks
https://librivox.classicistranieri.com

Linux Distributions
https://old.classicistranieri.com

Magnatune (MP3 Music)
https://magnatune.classicistranieri.com

Static Wikipedia (June 2008)
https://wikipedia.classicistranieri.com

Static Wikipedia (March 2008)
https://wikipedia2007.classicistranieri.com/mar2008/

Static Wikipedia (2007)
https://wikipedia2007.classicistranieri.com

Static Wikipedia (2006)
https://wikipedia2006.classicistranieri.com

Liber Liber
https://liberliber.classicistranieri.com

ZIM Files for Kiwix
https://zim.classicistranieri.com


Other Websites:

Bach - Goldberg Variations
https://www.goldbergvariations.org

Lazarillo de Tormes
https://www.lazarillodetormes.org

Madame Bovary
https://www.madamebovary.org

Il Fu Mattia Pascal
https://www.mattiapascal.it

The Voice in the Desert
https://www.thevoiceinthedesert.org

Confessione d'un amore fascista
https://www.amorefascista.it

Malinverno
https://www.malinverno.org

Debito formativo
https://www.debitoformativo.it

Adina Spire
https://www.adinaspire.com