پشتو
وکیپیڈیا سے
ہند آریائی زبانوں کی ایک شاخ ۔ پاکستان کے صوبہ سرحد ، قبائلی علاقوں اور پاکستانی بلوچستان ، افغانستان کے اکثریتی علاقوں میں بولی جاتی ہے۔ آریاؤں کی رگ وید اور پارسی مقدس کتاب ژند اوستا میں اس کا حوالہ ملتا ہے۔ مسلم عہد میں پھلی پھولی۔ دیگر زبانوں کی طرح اس کے ادب کی ابتدا بھی نظم سے ہوئی۔ پہلا سکہ بند اور معروف پشتو شاعر امیر کروڑ تھا۔ جو غزنوی دور میں گزرا ہے۔ ابو محمد ہاشم ، بستان باریچ، بابر خان ، بایزانصاری ، اخوند دریوزہ بابا اور خوشحال خان خٹک پشتو کلاسیکی شعری ادب میں ممتاز مقام کے حامل ہیں۔ خوشحال خان نے پشتو شاعری کو نئی جہتوں سے روشناس کیا۔ ان کی رزمیہ اورحب وطن سے معمور نظمیں پشتو شاعری کی جان ہیں۔
اٹھارویں اور انیسویں صدی میں پشتو شعری ادب خوب پھلا پھولا۔ رحمان بابا ، حامد مشو خیل۔ عبدالقادر خان خٹک ، اور اشرف خان ہجری جیسے نابغہ روزگار شاعری اسی دور سے تعلق رکھتے ہیں۔ جنگ نامہ جیسی لازوال رزمیہ نظمیں اسی عہد میں لکھی گئیں۔اس دور میں جو نثری کتب شائع ہوئیں ان میں تواریخ حافظ رحمت خانی اور پیر معظم شاہ ، ریاض المحبت از محبت خان اور عجیب اللغات از اللہ یار خان روہیلہ خصوصیت سے قابل ذکر ہیں۔
بیسویں صدی کے ممتاز پشتور شعرا میں عبداللہ شاہ ۔ خادم محمد اکبر ، مولانا عبدالقادر ، عبدالاکبر ، میاں احمد شاہ ، عبدالخالق ، خان میر ہلالی ، سید رسول رسا ، فضل حق شیدا ، سمندر خان سمندر ، صنوبر حسین محمد ، امیر حمزہ شنواری ، اور سید نثر اللہ جان ، قلندر مومند۔ شامل ہیں۔جبکہ نثر نگاروں میں ماسٹر عبدالکریم ، محمد اسلم خٹک ، عبدالروف نوشیروی ، سید نصراللہ جان، فضل حق شید وغیرہ شامل ہیں۔
ان شعراء کے بعد کے شعراء میں جدید شعرا شامل ہیں جن میں غنی خان ، اجمل خٹک ، شمس ، علی خان ، رحمت شاہ سائل ، وغیرہ۔ جبکہ آج کے دور میں اظہار اللہ اظہار ، اور اباسین یوسف زئی بھی شہرت کی بلندیوں کو چھو رہے ہیں۔ کچھ نوجوان شاعر مثلا امین تنہا اور علی آفریدی جیسے لوگ بھی ہیں جو کہ اپنے خوبصورت انداز شاعری سے لوگوں کے دل جیتنے میں کامیاب رہے ہیں۔
پشتو اکیڈیمی پشتو ادب کی اشاعت و فروغ کاممتاز ادارہ ہے۔ اور اسے حکومت کی سرپرستی حاصل ہے۔لیکن ان کی خدمات بھی آٹے میں نمک کے برابر ہیں۔ پشتو زبان ہر حوالے سے تنزلی کا شکار بھی نظر آتی ہے۔ جس کی سب سے بڑی وجہ خود پشتو بولنے والے صوبہ سرحد کے غیرت مند سیاست دان ہیں۔ صوبائی حکومت آج تک دسویں کلاس تک پشتو کو لازمی قرار دینے میں ناکام رہی۔ سکولوں میں پشتو کے اساتذہ کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے۔ اور صوبے کی تقریبا 80 فیصد سے زائد تعلیم یافتہ آبادی پشتو نہ لکھ سکتی ہے اور نہ پڑھ سکتی ہے۔ ہاں کم از کم مادری زبان ہونے کے باعث بول ضرور سکتی ہے۔ اور اگر یہی حالت رہی تو شاید یہ بھی ممکن نہ رہے۔