Web - Amazon

We provide Linux to the World


We support WINRAR [What is this] - [Download .exe file(s) for Windows]

CLASSICISTRANIERI HOME PAGE - YOUTUBE CHANNEL
SITEMAP
Audiobooks by Valerio Di Stefano: Single Download - Complete Download [TAR] [WIM] [ZIP] [RAR] - Alphabetical Download  [TAR] [WIM] [ZIP] [RAR] - Download Instructions

Make a donation: IBAN: IT36M0708677020000000008016 - BIC/SWIFT:  ICRAITRRU60 - VALERIO DI STEFANO or
Privacy Policy Cookie Policy Terms and Conditions
حسین علیہ السلام - وکیپیڈیا

حسین علیہ السلام

وکیپیڈیا سے

حسین
مکمل نام حسین ابن علی
ترتیب سوم
جانشین علی ابن حسین زین العابدین
تاریخ ولادت 3 شعبان، 04 ہجری
لقب سید الشہداء
کنیت ابو القاسم
والد علی ابن ابی طالب
والدہ فاطمہ بنت محمد
تاریخ وفات 10 محرم، 61 ہجری
10 اکتوبر، 680 عیسوی
وجۂ وفات شہادت


فہرست

[ترمیم کریں] نام ونسب

حسین نام اور ابو عبد اللہ کنیت ہے، پیغمبر خدا حضرت محمد مصطفےٰ کے چھوٹے نواسے علی علیہ السّلام وفاطمہ زہرا کے چھوٹے صاحبزادے تھے۔

[ترمیم کریں] ولادت

ہجرت کے چوتھے سال تیسری شعبان پنجشنبہ کے دن اپ کی ولادت ہوئی . اس خوشخبری کو سن کر جناب رسالت ماب تشریف لائے , بیٹے کو گود میں لیا , داہنے کان میں اذان اور بائیں میں اقامت کہی اور اپنی زبان منہ میں دے دیدی . پیغمبر کا مقدس لعاب دہن حسین علیہ السّلام کی غذا بنا . ساتویں دن عقیقہ کیا گیا . اپ کی پیدائش سے تمام خاندان میں خوشی اور مسرت محسوس کی جاتی تھی مگر انے والے حالات کاعلم پیغمبر کی انکھوں میں انسو برساتا تھا . اور اسی وقت سے حسین علیہ السّلام کے مصائب کاچرچا اہلیبت ُ رسول کے زبانوں پر انے لگا.

[ترمیم کریں] نشوو نما

پیغمبراسلام کی گود میں جو اسلام کی تربیت کاگہوارہ تھی اب دن بھردو بچّوں کی پرورش میں مصروف ہوئی ایک حسن علیہ السّلام دوسرے حسین علیہ السّلام اور اس طرح ان دونوں کا اور اسلام کا ایک ہی گہوارہ تھا جس میں دونوں پروان چڑھ رہے تھے . ایک طرف پیغمبر ُ اسلامجن کی زندگی کا مقصد ہی اخلاق انسانی کی تکمیل تھی اور دوسری طرف حضرت امیر المومنین علی علیہ السّلام ابن ابی طالب علیہ السّلام جو اپنے عمل سے خدا کی مرضی کے خریدار بن چکے تھے تیسری طرف حضرت فاطمہ زہرا جو خواتین کے طبقہ میںپیغمبر کی رسالت کو عملی طور پر پہنچانے کے لیے ہی قدرت کی طرف سے پیدا ہوئی تھیں اس نورانی ماحول میں حسین علیہ السّلام کی پرورش ہوئی۔

مقالہ بہ سلسلۂ مضامین

اسلام

تاریخ اسلام

عـقـائـد و اعـمـال

خدا کی وحدانیت
قبولیت اسلام
نمـازروزہ
حـجخـیـرات

اہـم شـخـصـیـات

محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم
حضرت علیحضرت ابوبکر حضرت عثمان حضرت عمر
احباب حضور اکرم
حضور اکرم کا خاندان
دیگر پیغمبران

کـتـب و قـوانـیـن

قرآنحدیث • شرعیت
قوانین • کلام
سـیـرت

مسلم مکتبہ ہائے فکر

سنی • شـیعہ • صوفی

معاشرتی و سیاسی پہلو

اسلامیات • فلسفہ
فنون • سائنس
فن تعمیر • مقامات
سالنامہ (کلنڈر) • تعطیلات
خواتین اور اسلام • رہنما
سیاسیات • جہاد • آذاد خواہی

مزید دیکھیئے

اسلامی اصطلاحات
اسلام پر مضامین کی فہرست

[ترمیم کریں] رسول کی محبت

جیسا کہ حضرت امام حسن علیہ السّلام کے حالات میں لکھا جاچکا ہے کہ حضرت محمد مصطفےٰ اپنے دونوں نواسوں کے ساتھ انتہائی محبت فرماتے تھے . سینہ پر بیٹھاتے تھے . کاندھوں پر چڑھاتے تھے اور مسلمانوں کو تاکید فرماتے تھے کہ ان سے محبت رکھو . مگر چھوٹے نواسے کے ساتھ اپ کی محبت کے انداز کچھ امتیاز خاص رکھتے تھے .ایسا ہو اہے کہ نماز میں سجدہ کی حالت میں حسین علیہ السّلام پشت ُ مبارک پراگئے تو سجدہ میں طول دیا . یہاں تک کہ بچہ خود سے بخوشی پشت پر سے علیٰحدہ ہوگیا .اس وقت سر سجدے سے اٹھایا اور کبھی خطبہ پڑھتے ہوئے حسین علیہ السّلام مسجد کے دروازے سے داخل ہونے لگے اور زمین پر گر گئے تو رسول نے اپنا خطبہ قطع کردیا منبر سے اتر کر بچے کوزمین سے اٹھایا اور پھر منبر پر تشریف لے گئے اور مسلمانوں کو متنبہ کیا کہ »دیکھو یہ حسین علیہ السّلام ہے اسے خوب پہچان لو اور اس کی فضیلت کو یاد رکھو « رسول نے حسین علیہ السّلام کے لیے یہ الفاظ بھی خاص طور سے فرمائے تھے کہ »حسین مجھ سے اور میں حسین علیہ السّلام سے ہوں,, مستقبل نے بتادیا کہ رسول کا مطلب یہ تھا کہ میرا نام اور کام دُنیا میں حسین علیہ السّلام کی بدولت قائم رہیگا .

[ترمیم کریں] رسول کی وفات کے بعد

امام حسین علیہ السّلام کی عمر ابھی چھ سال کی تھی جب انتہائی محبت کرنے والے کاسایہ سر سے اٹھ گیا .اب پچیس برس تک حضرت علی علیہ السّلام ابن ابی طالب علیہ السّلام کی خانہ نشینی کادور ہے .اس زمانہ کے طرح طرح کے ناگوار حالات امام حسین علیہ السّلام دیکھتے رہے اور اپنے والد بزرگوار کی سیرت کا بھی مطالعہ فرماتے رہے . یہ وہی دور تھا جس میں اپ نے جوانی کے حدود میں قدم رکھا اور بھر پور شباب کی منزلوں کو طے کیا .53ھئمیں جب حسین کی عمر 13برس کی تھی عام مسلمانوں نے حضرت علی علیہ السّلام ا بن ابی طالب علیہ السّلام کو بحیثیت خلیفہ اسلام تسلیم کیا . یہ امیر المومنین علیہ السّلام کی زندگی کے اخری پانچ سال تھے جن میں جمل صفین اور نہروان کی لڑائیں ہوئی اور امام حسین علیہ السّلام ان میں اپنے بزرگ مرتبہ باپ کی نصرت اور حمایت میں شریک ہوئے اور شجاعت کے جوہر بھی دکھلائے .04ھئ میں جناب امیر علیہ السّلام مسجد کوفہ میں شہید ہوئے اور اب امامت وخلافت کی ذمہ داریاں امام حسن علیہ السّلام کے سپرد ہوئیں جو حضرت امام حسین علیہ السّلام کے بڑے بھائی تھے .حسین علیہ السّلام نے ایک باوفااور اطاعت شعار بھائی کی طرح حسن علیہ السّلام کاساتھ دیااور جب امام حسن علیہ السّلام نے اپنے شرائط کے ماتحت جن سے اسلامی مفاد محفوظ رہ سکے معاویہ کے ساتھ صلح کرلی تھی تو امام حسین علیہ السّلام بھی اس مصلحت پر راضی ہوگئے اور خاموشی اور گوشہ نشینی کے ساتھ عبادت اور شریعت کی تعلیم واشاعت میں مصروف رہے مگر معاویہ نے ان شرائط کو جو امام حسن علیہ السّلام کے ساتھ ہوئے تھے بالکل پورا نہ کیا خود امام حسن علیہ السّلام کو سازش ہی سے زہر دیا گیا- حضرت علی علیہ السّلام بن ابی طالب علیہ السّلام کے شیعوں کو چن چن کے قید کیا گیا- سر قلم کئے گئے اور سولی پر چڑھایا گیا اور سب سے آخر اس شرط کے بالکل خلاف کہ, معاویہ کو اپنے بعد کسی کو جانشین مقرر کرنے کا حق نہ ہو گا« معاویہ نے یزید کو اپنے بعد کے لئے ولی عہد بنا دیا اور تمام مسلمانوں سے اس کی بیعت حاصل کرنے کی کوشش کی گئی اور زور و زر دونوں طاقتوں کو کام میں لا کر دنیائے اسلام کے بڑے حصے کا سر جھکوا دیا گیا-

[ترمیم کریں] اخلاق و اوصاف

امام حسین علیہ السّلام سلسلہ امامت کے تیسرے فرد تھے- عصمت و طہارت کا مجسمہ تھے- آپ کی عبادت, آپ کے زہد, آپ کی سخاوت اور آپ کے کمال ُاخلاق کے دوست و دشمن سب ہی قائل تھے- پچیس حج آپ نے باپیادہ کئے- آپ میں سخاوت اور شجاعت کی صفت کو خود رسول اللہ نے بچپن میں ایسا نمایاںپایا کہ فرمایا» حسین علیہ السّلام میں میری سخاوت اور میری جراَت ہے-« چنانچہ آپ کے دروازے پر مسافروں اور حاجتمندوں کا سلسلہ برابر قائم رہتا تھا اور کوئی سائل محروم واپس نہیں ہوتا تھا- اس وجہ سے آپ کا لقب ابوالمساکین ہو گیاتھا- راتوں کو روٹیوں اور کھجوروں کے پشتارے اپنی پیٹھ پر اٹھا کر لے جاتے تھے اور غریب محتاج بیواؤں اور یتیم بچوں کو پہنچاتے تھے جن کے نشان پشت مبارک پر پڑ گئے تھے- حضرت علیہ السّلام ہمیشہ فرمایا کرتے تھے کہ » جب کسی صاحبِ ضرورت نے تمہارے سامنے سوال کے لئے ہاتھ پھیلا دیا تو گویا اس نے اپنی عزت تمہارے ہاتھ بیچ ڈالی- اب تمہارا فرض یہ ہے کہ تم اسے خالی ہاتھ واپس نہ کرو, کم سے کم اپنی ہی عزتِ نفس کا خیال کرو-« غلاموں اور کنیزوں کے ساتھ آپ عزیزوں کا سا برتاؤ کرتے تھے- ذرا ذرا سی بات پر آپ انہیں آزاد کر دیتے تھے- آپ کے علمی کمالات کے سامنے دنیا کا سر جھکا ہوا تھا- مذہبی مسائل اور اہم مشکلات میں آپ کی طرف رجوع کی جاتی تھی- آپ کی دعاؤں کا ایک مجموعہ صحیفہ حسینیہ کے نام سے اس وقت بھی موجود ہے آپ رحمدل ایسے تھے کہ دشمنوں پر بھی وقت آنے پر رحم کھاتے تھے اور ایثار ایسا تھا کہ اپنی ضرورت کو نظر انداز کر کے دوسروں کی ضرورت کو پورا کرتے تھے- ان تمام بلند صفات کے ساتھ متواضع اور منکسر ایسے تھے کہ راستے میں چند مساکین بیٹھے ہوئے اپنے بھیک کے ٹکڑے کھا رہے تھے اور آپ کو پکار کر کھانے میں شرکت کی دعوت دی تو حضرت علیہ السّلامفوراً زمین پر بیٹھ گئے- اگرچہ کھانے میں شرکت نہیں فرمائی-اس بنائ پر کہ صدقہ آلِ محمد پر حرام ہے مگر ان کے پاس بیٹھنے میں کوئی عذر نہیں ہوا- اس خاکساری کے باوجود آپ کی بلندی مرتبہ کا یہ اثر تھا کہ جس مجمع میں آپ تشریف فرماہوتے تھے لوگ نگاہ اٹھا کر بات نہیں کرتے تھے - جو لوگ آپ کے خاندان کے مخالف تھے وہ بھی آپ کی بلندی مرتبہ کے قائل تھے- چنانچہ ایک مرتبہ حضرت امام حسین علیہ السّلام نے حاکم شام معاویہ کو ایک سخت خط لکھا جس میں اس کے اعمال و افعال اور سیاسی حرکات پر نکتہ چینی کی تھی اس خط کو پڑھ کر معاویہ کو بڑی تکلیف محسوس ہوئی- پاس بیٹھنے والے خوشامدیوں نے کہا کہ آپ بھی اتنا ہی سخت خط لکھئے- معاویہ نے کہا, »میں جو کچھ لکھوں گا وہ اگر غلط ہو تو اس سے کوئی نتیجہ نہیں اور اگر صحیح لکھنا چاہوں تو بخدا حسین علیہ السّلام میں مجھے ڈھونڈنے سے کوئی عیب نہیں ملتا-« آپ کی اخلاقی جراَت , راست بازی اور راست کرداری , قوتِ اقدام, جوش عمل اور ثبات و استقلال , صبر و برداشت کی تصویریں کربلا کے مرقع میں محفوظ ہیں- ان سب کے ساتھ آپ کی امن پسندی یہ تھی کہ آخر وقت تک دشمن سے صلح کرنے کی کوشش جاری رکھی مگر عزم وہ تھا کہ جان دے دی جو صحیح راستہ پہلے دن اختیار کر لیا تھا اس سے ایک انچ نہ ہٹے- انہوں نے بحیثیت ایک سردار کے کربلا میں ایک پوری جماعت کی قیادت کی- اس طرح کہ اپنے وقت میں وہ اطاعت بھی بے مثل اور دوسرے وقت میں یہ قیادت بھی لاجواب تھی-

[ترمیم کریں] واقعہ کربلا

حضرت امام حسن علیہ السّلام اور حاکم شام معاویہ بن ابوسفیان میں جو صلح ہوئی تھی اس کی ایک خاص اہم شرط یہ تھی کہ معاویہ کو اپنے بعد کسی جانشین کے مقرر کرنے کا حق نہ ہو گا مگر سب شرطوں کو عملی طور سے پائمال کرتے ہوئے معاویہ نے اس شرط کی بھی نہایت شدت کے ساتھ مخالفت کی اور اپنے بیٹے یزید کو اپنے بعد کے لئے نامزد کرنا کیسا, بلکہ اپنی زندگی ہی میں ممالک اسلامیہ کا دورہ کر کے بحیثیت آئندہ خلیفہ کے یزید کی بیعت حاصل کر لی- اس وقت حضرت امام حسین علیہ السّلام نے بیعت سے انکار فرما دیا- حاکم شام نے آپ کو موافق بنانے میں ہر طرح کی کوشش کی مگر نتیجہ ناکامیابی ہوئی یزید نہ صرف یہ کہ اصولی طور پر اس کی خلافت ناجائز تھی بلکہ اپنے اخلاق , اوصاف اور کردار کے لحاظ سے اتنا پست تھا کہ تختِ سلطنت پر اس کا برقرار ہونا اسلامی شریعت کے لئے سخت خطرے کا باعث تھا- شراب و جوار, بدکار اور ایسے اخلاقی جرائم کا مرتکب تھا جن کا ذکر بھی تہذیب اور شائستگی کے خلاف ہے- اس پر طرہ یہ کہ وہ حضرت امام حسین علیہ السّلام سے بیعت لینے پر مصر تھا گویا وہ اپنے خلاف ُ شریعت افعال کی صحت کے لئے پیغمبر اسلام کے نواسے سے سند حاصل کرنا چاہتا تھا- معاویہ کے مرنے کے بعد جب یزید تخت پر بیٹھا تو سب سے پہلی فکر اس کو یہی ہوئی کہ حضرت امام حسین علیہ السّلام سے بیعت حاصل کی جائے- اس نے اپنے گورنر کو جو مدینہ میں تھا معاویہ کی خبر انتقال کے ساتھ بیعت کے لئے بھی لکھا ولید نے جو مدینہ کا گورنر تھا امام حسین علیہ السّلام کوبلا کر یزید کا پیغام پہنچایا- آپ پہلے ہی سے یہ طے کئے ہوئے تھے کہ یزید کی بیعت آپ کے لئے ہرگز ممکن نہیں ہے- بیعت نہ کرنے کی صورت میں جو نتائج ہوں گے انہیں بھی خوب جانتے تھے مگر دین خدا کی حفاظت اورشریعت اسلام کی خاطر آپ کو سب گوارا تھا- آپ ولید کو مناسب جواب دے کر اپنے مکان پر واپس آئے- مدینہ میں قیام اس کے بعد نامناسب خیال فرما کر ہجرت کا مضبوط ارادہ کر لیا- ~060ئھ رجب کا مہینہ ~028تاریخ تھی- جب حضرت اپنے نانا کے جوار چھوڑ کر ظالموں کے جو روستم سے سفر غربت اختیار کرنے پر مجبور ہوئے- مکہ معظمہ عرب کے بین الاقوامی قانون اور پھر اسلامی تعلیمات کے روسے جائے پناہ اور امن و امان کی جگہ تھی- آپ نے مکہ میں ایک پناہ گزین کی حیثیت سے قیام فرمایا آپ کے ساتھ آپ کے قریبی اعزہ تھے جن میں خاندانِ رسول کی محترم بیبیاں اور کمسن بچے بھی تھے - آپ اپنی طرف سے کسی خونریزی اور جنگ کا ارادہ نہیں رکھتے تھے- حج کا زمانہ بھی قریب تھا اور حضرت علیہ السّلام کی دلی تمنا تھی کہ اس سال خانہ کعبہ کا حج ضرور فرمائیں جبکہ آپ مکہ ہی میں موجود ہیں مگر اسباب ایسے پیدا ہوئے کہ وہ بزرگوار جو اس کے پہلے پچیس حج خانہ کعبہ کے اپنے وطن مدینہ سے آ کر پاپیادہ بجا لا چکا تھا اس وقت مکہ میں موجود ہونے پر بھی حج کرنے سے مجبور ہو گیا- ظالم حکومت شام کی طرف سے کچھ لوگ حاجیوں کے لباس میں بھیجے گئے کہ وہ جس حالت میں بھی موقع ملے حضرت امام حسین علیہ السّلام کو خانہ کعبہ کے پاس ہی قتل کر ڈالیں- حضرت علیہ السّلام نہ چاہتے تھے کہ آپ کی وجہ سے مکہ کے اندر خونریزی ہو اور خانہ کعبہ کی حرمت برباد ہو- دو روز حج کو باقی تھے جب آپ تمام اہل و عیال اور اعزہ کے ساتھ مکہ معظمہ سے روانہ ہو گئے- اب آپ کہاں جاتے- کوفہ کے لوگ برابر خط بھیج رہے تھے کہ آپ یہاں تشریف لائیں اور ہماری مذہبی رہنمائی فرمائیں جبکہ آپ مکہ سے نکلنے پر مجبور ہو چکے تھے تو اب کوفہ ہی وہ مقام ہو سکتا تھا جس کی طرف آپ رخ کرتے- یہاں کے حالات کو دیکھنے کے لئے آپ اپنے چچا زاد بھائی مسلم بن عقیل علیہ السّلام کو بھیج چکے تھے- ~08ذی الحجہ کو حضرت علیہ السّلام مکہ معظمہ سے کوفہ کے ارادے سے روانہ ہوئے مگر یہی وہ وقت تھا جب کوفہ میں انقلاب ہو چکا تھا- شروع میں تو کوفہ کے لوگوں نے حضرت مسلم علیہ السّلام کا خیر مقدم کیا اور ~018ہزار آدمیوں نے بیعت کی مگر جب یزید کو اس کی اطلاع ہوئی تو اس نے حاکمِ کوفہ نعمان ابن بشیر کو معزول کیا اور ابن زیاد کو کوفہ کا حاکم مقرر کیا- یہ شخص بڑا ہی ظالم اور تشدد پسند تھا- اس نے کوفہ میں آ کر بڑے سخت احکام نافذ کئے اور تمام اہل کوفہ پر خوف و دہشت طاری ہو گئی- سب نے جناب مسلم علیہ السّلام کا ساتھ چھوڑ دیا اور آخر تن تنہا ہزاروں کا مقابلہ کرنے کے بعد بڑی مظلومی اور بے کسی کے ساتھ ~09ذی الحجہ کو وہ شہید کر ڈالے گئے- حضرت امام حسین علیہ السّلام عراق کے راستے میں منزل زبالہ# میں تھے جب حضرت علیہ السّلام کو مسلم علیہ السّلام کی خبر شہادت معلوم ہوئی اس کا حضرت علیہ السّلام پر بڑا اثر پڑا مگر عزم و استقلال میں ذرہ برابر فرق نہ آیا- واپسی کا بھی کوئی موقع نہ تھا - سفر جاری رہا- یہاں تک کہ ذوحسم # کی منزل میں ابن زیاد کی فوج میں سے ایک ہزار کا لشکر حر رض بن یزید ریاحی کی سرداری میں آپ کا راستہ روکنے کے لئے پہنچ گیا- یہ دشمن کی فوج تھی مگر حضرت امام حسین علیہ السّلام نے ان کے ساتھ رحم و کرم کا وہ مظاہرہ فرمایا جو دنیائے انسانیت میں یادگار رہے گا- تمام فوج کو پیاسا دیکھ کر جتنا پانی ساتھ تھا- وہ سب پلا دیا اور ان بے آب راستوں میں اپنے اہل حرم اور بچوں کی پیاس کے لحاظ سے پانی کا کوئی ذخیرہ محفوظ نہ رکھا- اس کے بعد بھی یزیدی فوج نے اپنے حاکم کی ہدایت کے موافق آپ کے ساتھ تشدد اختیار کیا- آپ کو آگے بڑھنے یا واپس جانے سے روک دیا- اب ~061ئھ کا پہلا مہینہ شروع ہو گیا تھا- دوسری محرم کو حضرت علیہ السّلام کربلا کی زمین پر پہنچے اور یہیں اترنے پر مجبور ہو گئے- دوسرے دن سے یزید کا ٹڈی دل لشکر کربلا کے میدان میں آنا شروع ہو گیا اور تمام راستے بند کر دیئے گئے- امام حسین علیہ السّلام کے ساتھ صرف ~072جانباز تھے اور ادھر ہزاروں کا لشکر پہلے سات دن تک امن قائم رکھنے کے لئے کوشش ہوتی رہی- حضرت علیہ السّلام یہاں تک تیار ہوئے کہ عرب کا ملک چھوڑ دیں- کسی دور دراز زمین پر چلے جائیں اور اس طرح اپنے آپ کو بیعت یزید سے الگ رکھتے ہوئے بھی ایسی صورت پیدا کر دیں کہ جنگ کی ضرورت پیش نہ آئے- مگر نویں محرم کی سہ پہر کو صلح کے امکانات ختم ہو گئے- ابن زیاد کے اس خط سے جو شمر کے ہاتھ سعد کے پاس بھیجا گیا اس میں لکھا تھا » یا حسین علیہ السّلام غیر مشروط طور پر اطاعت قبو ل کریں یا ان سے جنگ کی جائے-« اس خط کے پہنچتے ہی یزیدی فوج نے حملہ کر دیا- باوجود یہ کہ ساتویں سے پانی بند ہو چکا تھا امام حسین علیہ السّلام کے سامنے ان کے اہل حرم اور چھوٹے بچوں کی بے تابی کے مناظر, العطش کی صدائیں اور مستقبلکے حالات سب ہی کچھ تھے- مگر یزید کی بیعت اب بھی اسی طرح غیر ممکن تھی جس طرح اس کے پہلے بے شک آپ نے یہ چاہا کہ ایک رات کی مہلت مل جائے- آپ چاہتے تھے کہ یہ پوری رات آخری طور پر عبادت خدا میں بسر کریں- اس کے علاوہ دوست و دشمن دونوں کو جنگ کا قطعی فیصلہ ہو جانے کے بعد اپنے اپنے طرز عمل پر غور کرنے کا موقع مل جائے- آپ نے اپنے ساتھیوں کو جمع کر کے تقریر بھی فرمائی- آپ نے فرمایا »کل قربانی کا دن ہے ان ظالموں کو مجھ سے دشمنی ہے, کیا ضرورت ہے کہ تم لوگ بھی اپنی زندگی کو میرے ساتھ خطرے میں ڈالو, میں تم سے اپنی بیعت اٹھائے لیتا ہوں- اس رات کے پردے میں جدھر چاہو چلے جاؤ-« مگر ان جانبازوں نے ایک زبان ہو کر کہا کہ »ہم آپ کا ساتھ کبھی نہیں چھوڑیں گے-« عاشورہ کی رات ختم ہوئی- دسویں محرم کو صبح سے عصر تک کی مدت میں ان بہادروں نے جو کچھ کہا تھا اسے کر کے دکھایا- اس وفاداری , استقلال اور بہادری کے ساتھ حضرت امام حسین علیہ السّلام کی نصرت میں دشمنوں سے مقابلہ کیا جو تاریخ میں یادگار رہے گا- ان میں حبیب ابن رض مظاہر, مسلم رض بن عوسجہ, سوید ابن عمرو, انس بن حارث اور عبدالرحمن ابن عبدالرب ایسے ساٹھ ستر اور اسی برس کے بوڑھے تھے اور متعدد اصحاب ُ رسول بھی تھے- بریر ہمدانی کنانہرض ابن عتیق تغلبیرض , نافع رض ابن ہلال, حنظلہرض ابن اسعد جیسے حفاظ قرآن تھے اور بہت سے علمائ اور راویا ن حدیث, بہت سے عابدِ شب زندہ دار اور بہت سے ایسے شجاعانِ روزگار تھے جن کی شجاعت کے کارنامے لوگوں کی زبان پر تھے- جب مددگاروں میں کوئی باقی نہ رہا تو عزیزوں کی نوبت آئی- سب سے پہلے حضرت علیہ السّلام نے جوان بیٹے علی اکبر علیہ السّلام کو جو شبیہہ پیغمبر بھی تھے مرنے کے لئے بھیج دیا علی اکبر علیہ السّلام نے جہاد کر کے اپنی جان دین خدا پر نثار کی- امام حسین علیہ السلام کو شبیہ رسول کی جدائی کا صدمہ تو بہت ہوا مگر عمل کے راستے میں آپ کی ہمت کے حوصلے اور ولولے میں کوئی فرق نہیں آیا- عقیل کی اولاد عبداللہ ابن جعفر کے فرزند ایک ایک کر کے رخصت ہوئے- امام حسن علیہ السّلام کے یتیم قاسم علیہ السّلام کی جدائی آپ کو شاق ہوئی مگر اپنے بزرگ مرتبہ بھائی کی وصیت کو پورا کرتے ہوئے قاسم علیہ السّلام کو بھی رخصت کر دیا- سب سے آخر میں فرزندان امیر المومنین علیہ السّلام میدان جنگ جہاد میں گئے - جب کوئی نہ رہا تو علمدار علیہ السّلام کی باری آئی- قمر بنی ہاشم ابوالفضل العباس علیہ السّلام کو حضرت علیہ السّلام کسی طرح اجازت جہاد نہ دیتے تھے کیونکہ ان کے کاندھوں پر اسلام کا علم لہرا رہا تھا- مگر ایک طرف بچوں کو پیاس, دوسری طرف جوش جہاد, عباس علیہ السّلام پانی لینے کے لئے ایک مشک اپنے ساتھ لے کر فرات کی جانب متوجہ ہوئے- انہوں نے علم کی حفاظت بھی کی- دشمنوں سے مقابلہ کیا-فوج کو ہٹا کر نہر کا راستہ بھی صاف کیا اور مشک میں پانی بھی بھر لیا مگر افسوس کہ یہ پانی خیام حسینی تک پہنچنے نہیں پایا تھا کہ بہادر عملدار علیہ السّلام کے شانے قلم ہوئے- مشک تیر سے چھدی اور پانی زمین پر بہا- عباس علیہ السّلام کی قوت ختم ہو گئی-گرز کے صدمے سے زمین کی طرف جھکے اور علم عباس علیہ السّلام کے ساتھ زمین پرآ گیا- حسین علیہ السّلام کی کمر شکستہ ہو گئی- پشت جھک گئی مگر ہمت پھر بھی نہیں ٹوٹی- اب جہاد کے میدان میں حسین علیہ السّلام کے سوا کوئی نظر نہ آتا تھا مگر فہرست ُ شہدائ میں ابھی ایک بے مثال مجاہد کا نام باقی تھا جس کا جواب قربانی کی تاریخ میں نہ پہلے نظر آیا نہ بعد میں نظر آ سکتاہے- یہ چھ مہینے کا بچہ علی اصغر علیہ السّلام تھا جو گہوارہ میں پیاس سے جاں بلب تھا- حسین علیہ السّلام در خیمہ پر تشریف لائے اور اس بچہ کو طلب فرمایا - بچہ کی عطش اور اس کی حالت کا مشاہدہ فرمایا- یقینایہ منظر ہر حساس انسان کو متاثر کرنے کے لئے کافی تھا مگر کیسے بے رحم تھے وہ سخت دل فوج شام کے سپاہی جنہوں نے حسین علیہ السّلام کے ہاتھوں پر اس معصوم بچے کو دیکھ کر بجائے اس کے کہ رحم کھاتے بچے کو ایک ذرئہ آب سے سیراب کرتے ظلم اور شقاوت کو انتہائی حد تک پہنچا دیا- سخت دل حرملہ کا تیر اور بچہ کا نازک گلا- امام حسین علیہ السّلام نے یہ آخری ہدیہ بھی بارگاہ الہٰی میں پیش کردیا تو خود بہ نفس نفیس میدان جہاد میں قدم رکھا اور باوجود اس بے کسی اور شکستگی کے جب کہ تین دن کے بھوکے اور پیاسے تھے دن بھر اصحاب و اعزہ کی لاشیں اٹھائی تھیں اور بہتر داغ سینہ پر کھا چکے تھے- بھائی کے غم سے کمر شکستہ تھی اور اولاد کے داغ سے کلیجہ زخمی ہو گیا تھا- مگر جب نصرتِ اسلام کے لئے تلوار نیام سے نکالی تو دنیا کو حمزہ علیہ السّلام اور جعفر علیہ السّلام کی شان اور حیدر صفدر علیہ السّلام کی شجاعت یاددلا دی- آخر قربانی کی منزل سامنے آ گئی- دشمنوں کی تلواریں نیزے اور تیر اور وہ مقدس جسم زخموں کی کثرت, خون کے بہنے سے گھوڑے پر سنبھلنے کی طاقت نہ رہی- دشمنوں نے ایذا رسانی کی کوئی حرمت باقی نہ رکھی شمر کا خنجر فرزندِ رسول کے گلے پر کیا پھرا گویا رسول کا سر قلم ہوا اور نام نہاد کلمہ اسلام پڑھنے والوں نے پیغمبر اسلام کے نواسے کا سر نیزہ پر بلند کیا- اتنا ہی نہیں بلکہ خیموں میں آگ لگا دی خانوادئہ عصمت کی مقدس بیبیوں کے سروں سے چادریں اتاری گئیں- شہیدوں کی لاشیں گھوڑوں کے سموں سے پامال کی گئیں- امام حسین علیہ السّلام کے بعد مردوں میں صرف ایک بیمار فرزند سید سجاد علیہ السّلام باقی تھے جنہیں طوق و زنجیر پہنایا گیا اور بیبیوں اور بچوں کے ساتھ قید کر کے شہر بشہر پھرایا گیا کربلا سے کوفہ اور کوفہ سے شام قیدیوں کی صورت سے لے جائے گئے اور ابن زیاد اور یزید کے درباروں میں کھڑے کئے گئے ان واقعات کا مختصر تذکر حضرت سید سجاد علیہ السّلام کے حالات میں آپ کی نظر سے گزرے گا- ان نام کے مسلمانوں نے پیغمبر اسلام کے فرزند کو دفن و کفن سے بھی محروم رکھا تھا مگر آس پاس کے رہنے والے قبیلہ بنی اسد کے لوگوں نے فوج ظلم کے چلے جانے کے بعد بارہ محرم کو یعنی شہادت سے تیسرے دن دفن کیا- آ ج کربلائے معلی میں حسین علیہ السّلام کا روضہ انتہائی شان و شوکت کے ساتھ تمام دنیا کے لوگوں کا مرکز بنا ہوا ہے اور حسین علیہ السّلام کے نام کاتعزیہ اور ضریح اور علم اور مختلف مظاہرات دنیا کے ہر گوشے میں نظر آتے ہیں- حسین علیہ السّلام دنیا میں قائم ہیں اور حسین علیہ السّلام کی بدولت اسلام باقی ہے اور صداقت و استقلال اور حق پرستی کے لئے امام حسین علیہ السّلام کا اسوئہ حسنہ تاریخ انسانیت میں بے مثال حیثیت سے باقی ہے اور ہمیشہ باقی رہے گا- اگر واقعہ کربلا سے دنیا صحیح سبق حاصل کرے اور سید الشہدا ئ نے کربلا میں جو بے نظیر نمونہ پیش کیا ہے اس پر عمل پیرا ہونے کی کوشش بھی جاری رہے تو زندگی کے آثار نمایاں ہو جائیں- ہم میں کیا کمی ہے? یہی ہے کہ بلند مقاصد کے سامنے اپنے وقتی مفاد اپنے راحت و آرام, انپی زندگی , اپنی قرابتوں اور اپنے اہل و عیال اور اولاد نہ جانے کتنی رو پہلی سنہری مصلحتوں کا لحاظ کرتے ہیں- امام حسین علیہ السّلام نے یہ مثال پیش کی ہے کہ تم بلند مقاصد کے لئے ہر چیز کو قربان کرنے کے لئے تیار رہو, مبارک ہوں گے وہ افراد جو اس سے سبق حاصل کریں اور اپنے عملی حیثیت سے ویسا ہی پیش کریں جیسا حسین علیہ السّلام دنیا کو بنانا چاہتے تھے۔

Our "Network":

Project Gutenberg
https://gutenberg.classicistranieri.com

Encyclopaedia Britannica 1911
https://encyclopaediabritannica.classicistranieri.com

Librivox Audiobooks
https://librivox.classicistranieri.com

Linux Distributions
https://old.classicistranieri.com

Magnatune (MP3 Music)
https://magnatune.classicistranieri.com

Static Wikipedia (June 2008)
https://wikipedia.classicistranieri.com

Static Wikipedia (March 2008)
https://wikipedia2007.classicistranieri.com/mar2008/

Static Wikipedia (2007)
https://wikipedia2007.classicistranieri.com

Static Wikipedia (2006)
https://wikipedia2006.classicistranieri.com

Liber Liber
https://liberliber.classicistranieri.com

ZIM Files for Kiwix
https://zim.classicistranieri.com


Other Websites:

Bach - Goldberg Variations
https://www.goldbergvariations.org

Lazarillo de Tormes
https://www.lazarillodetormes.org

Madame Bovary
https://www.madamebovary.org

Il Fu Mattia Pascal
https://www.mattiapascal.it

The Voice in the Desert
https://www.thevoiceinthedesert.org

Confessione d'un amore fascista
https://www.amorefascista.it

Malinverno
https://www.malinverno.org

Debito formativo
https://www.debitoformativo.it

Adina Spire
https://www.adinaspire.com