بلوچستان
وکیپیڈیا سے
بلوچستان !رقبہ کے لحاظ سے یہ پاكستان کا سب سے بڑاصوبہ ہے جو ایک لاکھ سینتالیس ہزار مربع میل پر پھیلا ہوا ہے یعنی پاكستان کا چالیس فی صد رقبہ!لیکن آبادی اس کی سب سے کم ہے! یعنی بہتر لاکھ کے قريب جو ملک کی کل آبادی کالگ بھگ صرف چار فی صد حصہ ہےبلوچستان ! قدرتی گیس ، کوئلہ، سونے، تانبہ كى معدنیاتی دولت سے مالامال ہے۔
ایران میں بلوچوں کا علاقہ جو ایرانی بلوچستان کہلاتا ہے اور جس کا دارالحکومت زاہدان ہے، ستر ہزار مربع میل کے لگ بھگ ہے- بلوچوں کی آبادی ایران کی کل آبادی کا دو فی صد ہے- افغانستان میں زابل کے علاقہ میں بلوچوں کی ایک بڑی تعداد آباد ہے-
[ترمیم کریں] تاریخ
آثار قدیمہ کی دریافتوں سے یہ بات ثابت ہو گئی ہے کہ بلوچستان میں پتھروں کے دور میں بھی آبادی تھی۔ مہر گڑھ کے علاقہ میں سات ہزار سال قبل مسیح کے زمانہ کی آبادی کے نشانات ملے ہیں۔ سکندر اعظم کی فتح سے قبل بلوچستان کے علاقہ پر ایران کی سلطنت کی حکمرانی تھی اور قدیم دستاویزات کے مطابق یہ علاقہ ُ ماکا ، کہلاتا تھا۔ تین سو پچیس سال قبل مسیح میں سکندر اعظم جب سندھو کی مہم کے بعد عراق میں بابل پر حملہ کرنے جا رہا تھا تو یہیں مکران کے ریگستان سے گذرا تھا۔اس زمانہ میں یہاں براہوی آباد تھے جن کا تعلق ہندوستان کے قدیم ترین باشندوں، دڑاوڑوں سے تھا-
پاكستان كے ساحل كا ذيادہ تر بلوچستان كا ساحلى علاقہ ہے! قیام پاکستان کے وقت یہ مشرقی بنگال، سندھ، پنجاب اور سرحد کی طرح برطانوی راج کا باقاعدہ حصہ نہیں تھا بلکہ سن سینتالیس تک بلوچستان، قلات، خاران، مکران اور لس بیلہ کی ریاستوں پر مشتمل تھا جن پر برطانوی ایجنٹ نگران تھا۔ قلات کی ریاست جو كہ ان میں سب سے بڑی ریاست تھى اس كے حکمران خان قلات میراحمد یار خان نے قیام پاکستان سے دو روز قبل اپنی ریاست کی مکمل آزادی کا اعلان کیا تھا اور خصوصی تعلقات پر مذاکرات کی پیشکش کی تھی۔ پاکستان کے ساتھ خان قلات کے اس اقدام کی دوسرے تمام بلوچ سرداروں نے حمایت کی تھی اور بلوچستان کی علحیدہ حیثیت برقرار رکھنے پر زور دیا تھا لیکن پاکستان نے خان قلات کے اس اقدام کو بغاوت سے تعبیر کیا اور پاكستان نے خان قلات اور ان کی ریاست کے خلاف کاروائی کی آخر کار مئی سن اڑتالیس میں خان قلات کو گھٹنے ٹیک دینے پڑے اور وہ پاکستان میں شمولیت پر مجبور ہو گئے۔ ان کے چھوٹے بھائی شہزادہ میر عبدالکریم نے البتہ قلات کی پاکستان میں شمولیت کے خلاف مسلح بغاوت کی اور آخر کار انہیں افغانستان فرار ہونا پڑا سن تہتر تک بلوچستان گورنر جنرل کے براہ راست کنٹرول میں رہا، سن چھپن کے آئین کے تحت بلوچستان کو مغربی پاکستان کے ایک یونٹ میں ضم کر دیا گیا سن ستر میں جب عام انتخابات ہوئے اس میں پہلی بار بلوچستان ایک الگ صوبہ بنا بلوچستان میں نیشنل عوامی پارٹی فاتح رہی اور سن بہتر میں پہلی بار بلوچستان میں منتخب حکومت قائم ہوئی۔