اکبر اعظم
وکیپیڈیا سے
عہد حکومت( 1556ء تا 1605ء)
جلال الدین اکبر سلطنت مغلیہ کے دوسرے فرماں روا، ہمایون کابیٹا ، ہمایون نے اپنی جلاوطنی کے زمانے میں ایک ایرانی عورت حمیدہ بانو سے شادی کی تھی ۔ اکبر اُسی کے بطن سے 1542ء میں امر کوٹ کے مقام پر پیدا ہوا۔ ہمایون کی وفات کے وقت اکبر کی عمر تقریباً چودہ برس تھی اور وہ اس وقت اپنے اتالیق بیرم خان کےساتھ کوہ شوالک میں سکندر سوری کے تعاقت میں مصروف تھا۔ باپ کی موت کی خبر اسے کلانور ضلع گورداسپور (مشرقی پنجاب) میں ملی۔ بیرم خان نے وہیں اینٹوں کا ایک چبوترا بنو کر اکبر کی رسم تخت نشینی ادا کی اور خود اس کا سرپرست بنا۔ تخت نشین ہوتے ہی چاروں طر سے دشمن کھڑے ہوگئے ۔ ہیموں بقال کو پانی پت کی دوسری لڑائی میں شکست دی۔ مشرق میں عادل شاہ سور کو کھدیڑا۔ پھر اس نے اپنی سلطنت کو وسعت دینی شروع کی۔
1556ء میں دہلی ، آگرہ ، پنجاب پھر گوالیار ، اجمیر اور جون پور بیرم خان نے فتح کیے۔ 1562ء میں مالوہ 1564ء میں گونڈدانہ ، 1568ء میں چتوڑ، 1569ء میں رنتھمپور اور النجر ، 1572ء میں گجرات ، 1576ء میں بنگال 1585ء میں کابل اور کشمیر اور سندھ ، 1592ء میں اڑیسہ ، 1595ء میں قندہار کا علاقہ ، پھر احمد نگر ، اسیر گڑھ اور دکن کے دوسرے علاقے فتح ہوئے اور اکبر کی سلطنت بنگال سے افغانستان تک اور کشمیر سے دکن میں دریائے گوداوری تک پھیل گئی۔
اکبر نے نہایت اعلٰی دماغ پایا تھا۔ ابوالفضل اور فیضی جیسے عالموں کی صحبت نے اس کی ذہنی صلاحیتوں کو مزید جلا بخشی ۔ اس نے اس حقیقت کا ادراک کر لیاتھا کہ ایک اقلیت کسی اکثریت پر اس کی مرضی کے بغیر زیادہ عرصے تک حکومت نہیں کر سکتی۔ اس نے ہندوؤں کی تالیف قلوب کی خاطر انہیں زیادہ سے زیادہ مراعات دیں اور ان کے ساتھ ازدواجی رشتے قائم کیے۔ نیز دین الہٰی کے نام سے ایک نیامذہب جاری کیا۔ جوایک انتہا پسندانہ اقدام تھا۔ وہ خود ان پڑھ تھا۔ لیکن اس نے دربار میں ایسے لوگ جمع کر لیے تھے جو علم و فن میں نابغہ روزگار تھے۔ انھی کی بدولت اس نے بچاس سال بڑی شان و شوکت سے حکومت کی اور مرنے کےبعد اپنے جانشینوں کے لیے ایک عظیم و مستحکم سلطنت چھوڑ گیا۔